ایران کے جوہری عزائم حقیقت یا مغربی پروپیگنڈہ: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

سبھی اس امر سے واقف ہیں کہ جب ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری اسلحے کے مدعے پر پانچویں دور کے مذاکرات چل رہے تھے، تبھی اسرائیل نے میزائل سے ایران پر زور دار حملے کیے۔ یہ حملہ دراصل سوچی سمجھی سازش تھی، جس میں ایران کے چوٹی کے ملٹری افسران، سائنس دان، انجینئر اور دیگر اہلِ دانش مارے گئے۔ ظاہر ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس ابتدائی بیان-کہ ان کا اس حملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حملہ امریکہ کی اجازت سے کیا گیا تھا اور اس منصوبے میں ڈونالڈ ٹرمپ پوری طرح شامل تھے۔ بظاہر اسرائیل نے حملے کا عذر یہ پیش کیا کہ ایران جوہری اسلحے بنانے کے قریب ہے، اور ہم اسے ایسا نہیں کرنے دیں گے کیونکہ یہ ہمارے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل کا فوری مقصد ایران کے جوہری تنصیبات کو برباد کرنا تھا، لیکن یہ سب تو محض ایک بہانہ تھا۔ دراصل، اسرائیل کے اس حملے کا مقصد موجودہ نظامِ حکومت کو اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا تھا، جس کے ذریعہ امریکہ ایران کے تیل اور گیس کے اثاثے کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا تھا۔ واقعی اسرائیل نے جس جارحیت کے ساتھ حملے کا آغاز کیا، کوئی دوسری حکومت ہوتی تو گھٹنے ٹیک دیتی، لیکن اس ملک کے قائدین اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے چند گھنٹوں میں ایک نئی فوجی اور سائنسی قیادت تیار کر لی اور دوسرے ہی دن اپنے طاقتور بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا۔ اسرائیل کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کا دفاعی نظام ناقابلِ تسخیر ہے جو غلط ثابت ہوا۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ہفتے کی جنگ میں اسرائیل کی سرزمین غزہ کے ملبوں کا ڈھیر معلوم ہو رہی ہے، جبکہ ایران میں، تہران کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر، زندگی نسبتاً نارمل معلوم ہوتی ہے۔یقینانقصان ایران کا بھی ہوا ہے اور وہاں اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ اموات ہوئی ہیں، لیکن اب ایران کے حملے زیادہ خطرناک ہیں اور اہداف پر زیادہ درستگی سے چوٹ کر رہے ہیں۔ ایران نے اسرائیل کے کئی ایس-35 جنگی طیارے بھی گرا دیے ہیں۔ پورے اسرائیل میں افراتفری کا عالم ہے۔ عوام زیادہ تر بنکروں میں چھپے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہ نیتن یاہو اور دوسرے وزراء بھی محفوظ مقامات پر چھپ کر کام کر رہے ہیں۔ ایران کی سڑکوں پر اسرائیل کے خلاف اور حکومت کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی اسرائیل غزہ کے بھوکے شہریوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، اس نوعیت کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی اور یقیناً اس کی اس کرتوت کے لیے امریکہ زیادہ ذمہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب اسرائیل بیک فٹ پر ہے، تب بھی دنیا کے کسی ملک کے عوام کی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے۔ جوہری اسلحے کے مدعے پر ایران کا موقف واضح ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003 میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں جوہری ہتھیار کی تیاری کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔نیشنل انٹلی جنس امریکہ کی ڈائریکٹر نیشنل انٹلی جنس، ایورل ہینس، نے کہا کہ یہ فتویٰ اب بھی مؤثر ہے اور اسرائیل کا یہ تخمینہ کہ ایران جوہری بم بنانے سے صرف پندرہ دن کے فاصلے پر ہے، محض خوف پھیلانے کے مترادف ہے۔ کچھ دنوں قبل انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے ایک غلط رپورٹ پیش کی تھی کہ ایران یا تو جوہری اسلحے تیار کر چکا ہے یا اسے تیار کرنے کے بہت قریب ہے۔ لیکن نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی انٹلی جنس ایجنسیاں کہتی ہیں کہ ایران نے ابھی تک جوہری بم بنانے کا فیصلہ بھی نہیں کیا ہے۔ حالانکہ اس کے پاس اتنی افزودہ یورینیم موجود ہے جو بم تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے، مگر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں کئی ماہ بلکہ ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ آج وہی آئی اے ای اے بھی اس بات کو مانتا ہے کہ ایران کے پاس نہ تو جوہری اسلحے ہیں اور نہ وہ کم مدت میں اسے بنا سکتا ہے، لیکن اس ادارے کی پہلے کی غلط رپورٹ کا سہارا لے کر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے ایران پر تمام پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ان پابندیوں کے باوجود ایران نے گزشتہ بیس پچیس برسوں میں زندگی کے ہر شعبے میں جتنی ترقی کی ہے، وہ دیگر مسلم ممالک کے لیے قابلِ مثال ہے۔ آج ایران میں تعلیم کی شرح 90 فیصد ہے۔

اس نے سائنس، ٹیکنالوجی اور خصوصاً ملٹری سائنس میں بے انتہا ترقی کر لی ہے۔ آج اس نے ڈرونز، سپر سونک اور ہائپر سونک میزائلوں کی مدد سے اسرائیل کو بیک فٹ پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس کے یہ اسلحے روس اور دوسرے ممالک کو برآمد کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ کی عوام، ٹرمپ کی اپنی پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثریتی ممبران کے دباؤ کے سبب اور جنگ کے بارے میں روس اور چین کے واضح موقف کے پیشِ نظر، اب ٹرمپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ اس جنگ میں کھل کر شامل ہوں یا نہ ہوں۔ ایک پریس رپورٹر سے پہلے ٹرمپ کہتے ہیں کہ میں جنگ میں شامل بھی ہو سکتا ہوں اور نہیں بھی۔ اب وہ اس پر فیصلہ لینے کے لیے دو ہفتے کا وقت مانگ رہے ہیں۔ امریکہ میں ماگا (میک امریکہ گریٹ اگین) کے حامی بھی ان کے بلاواسطہ جنگ میں کودنے کے خلاف ہیں۔ ایک اور بڑا سبب جو انہیں جنگ میں جانے سے روک رہا ہے وہ ہے نوبل پیس پرائز حاصل کرنے کی ان کی خواہش۔ ٹرمپ کی پہل پر یوروپی یونین کے چند ممالک اور ایران کے وزیر خارجہ کے بیچ معاہدے کے مذاکرات چل رہے ہیں۔ ٹرمپ دو ہفتے کا وقت اسی لیے چاہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے اور جنگ بندی نافذ ہو جائے۔

دراصل اسرائیل اور ایران کے حالات خاصے الگ ہیں۔ ایران کے عوام میں قومی جذبہ ہے، ان کو وطن سے محبت ہے اور وہ اپنی حکومت کے حامی ہیں۔ اسرائیل کے عوام نیتن یاہو کی غلط پالیسیوں سے پریشان ہیں۔ ان کے اندر وہ قومی جذبہ نہیں ہے جو ایرانیوں میں ہے اور نہ ہی وہ قوتِ برداشت، جس کا مظاہرہ ایرانی کر سکتے ہیں۔ دراصل نیتن یاہو اپنے ملک میں بدعنوانی کے مقدمے میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اقتدار بچانے کے لیے ملک کو جنگ میں جھونک دیا ہے۔ دوسرا، ایران نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو تہس نہس کر دیا ہے اور اس کے اسلحے بھی ختم ہو رہے ہیں، جبکہ ایران کے پاس طاقتور میزائلوں کا ذخیرہ ہے اور وہ برسوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نیتن یاہو اس جنگ سے باوقار اخراج چاہتے ہوں۔

یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس جنگ کے عالمی جنگ میں تبدیل ہونے کے کتنے امکانات ہیں؟ دنیا دو عالمی جنگیں دیکھ چکی ہے اور اس سے خاصا سبق سیکھا جا چکا ہے، لیکن اس وقت روس اور چین، جن کے ایران سے تعلقات کافی گہرے ہیں اور جنہوں نے ایران میں خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ اپنے مفاد کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اگر امریکہ اور یوروپی ممالک اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیتے ہیں تو عالمی جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس جنگ کی زد میں صرف مشرقِ وسطیٰ ہی آئے گا، بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی اس کا منفی اثر پڑے گا۔ دراصل چین نے ایران میں کافی سرمایہ لگا رکھا ہے اور اسی لیے وہ کھل کر ایران کے حق میں بول رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ضرورت پڑنے پر ایران نے یوکرین جنگ میں روس کی مدد کی ہے، تو روس بھی ایران کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔بہرحال، یہی امید رکھنی چاہیے کہ عالمی جنگ نہ چھڑے۔ جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے، نہ ہی کسی مسئلے کا حل ہے۔ ویسے بھی ایران-اسرائیل جنگ اقتصادی طور پر خستہ حال امریکہ اور اسرائیل کے حق میں نہیں ہوگی۔ اس جنگ کی قیمت، کم از کم اقتصادی طور پر، عالم کے سارے ممالک کو ادا کرنی پڑے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS