ایرانی صدر ابراہیم رئیسی: اسلامک مجاہد آزادی

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
گزشتہ ہفتے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت سے عالمی سیاست پر گہرا اثرہوا۔ تجزیہ کاروں نے وضاحت کی کہ یہ کون کر سکتا ہے،اس ’بیل-12‘ امریکی ہیلی کاپٹر گرا کر تباہ کیا؟کیا اس میں کوئی بین الاقوامی سازش ہے؟صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ عبداللہیان کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے بعد، ہم ایران پر اس کے پڑنے والے اثرات پرچرچہ کرلیتے ہیں۔ رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کاجانشین سمجھاجاتاتھا۔ایسے میںان کی اچانک موت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایران نے ایک ہفتہ کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔

ہیلی کاپٹر کے حادثے میں صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی ہلاکت نے ایرانیوں کو سوگوار کر دیا۔ جیسے ہی ایران کے سرکاری میڈیا نے ان کی موت کی تصدیق کی، مسلمانوں میں سوگ کی لہردوڑگئی۔ ابراہیم رئیسی اورعبداللہیان دونوں کو’شہید‘ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی صدر کی ناگہانی موت کے بعد یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اس کے اسلامی جمہوریہ کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟’شیعہ تھیوکریسی‘ میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔ نائب صدر محمد مخبر کو عبوری صدر قرار دیا گیا ہے۔کیوںدیگردو ہیلی کاپٹرکریش نہیں ہوئے؟ جس میں صدر، وزیر خارجہ اور دیگر ایرانی حکام موجود تھے وہ تباہ ہو کر راکھ ہو گیا۔ تاہم جو لوگ ایسا سوچتے ہیں وہ مایوس ہو سکتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رئیسی کی ناگہانی موت سے ایران کی حکمرانی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

بلاشبہ’شیعہ‘ طبقہ جذباتی طورپر غمزدہ ہے، لیکن ایرانی صدر کی موت پر’سنی اور تمام مسلم طبقے‘ متفق ہیں کہ اس کے پیچھے بین الاقوامی سازش ہے۔ ریچ مین یونیورسٹی میں ایرانی امور کے لیکچرار ڈاکٹر میر جاوین فر نے بتایاکہ رئیسی کی موت سے ایرانی حکومت کی پالیسیوں کی سطح پر زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ رئیسی کی موت سے نہ تو اسرائیل کے ساتھ ایران کی دشمنی میں کوئی تبدیلی آئے گی اورنہ ہی وہ حقیقی انتہا پسند ’حماس اور حزب اللہ‘ کی حمایت یا جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں کو روکے گا۔ ایران میں آیت اللہ خامنہ ای کو سپریم لیڈر کا درجہ حاصل ہے۔ یعنی وہاں صدر منتخب ہونے کے باوجود ملک کی پالیسیاں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہی طے کرتے ہیں۔ ایسے میں ایران کی تمام جارحانہ پالیسیاں پہلے کی طرح جاری رہیں گی۔ اسرائیل کے سابق قومی سلامتی کے مشیر میجر جنرل یاکوف امیڈور کا کہنا ہے کہ رئیسی اور امیر عبداللہیان کی جگہ لینے والوں کی زبان الگ ہوگی، لیکن ایران میں حتمی فیصلہ نہ تو صدر اور نہ ہی وزیر خارجہ کرتے ہیں۔ ابراہیم رئیسی کو خامنہ ای کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ ایران کے’ محکمہ انصاف‘ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالنے والے ابراہیم رئیسی 2021 میں صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں بہت سے لوگوں کو پھانسی دینے کا حکم دیاتھا۔ اسی لیے انھیں ’تہران کا قصاب‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اپنے بنیاد پرست خیالات کے لیے مشہور، 64 سالہ رئیسی نے ایران کی بین الاقوامی خودمختاری کو قائم کیا، جس سے اسے تمام اسلامی ریاستوں میں خصوصی احترام حاصل ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جو رئیس کو ان کی جگہ لینے والوں سے مختلف بناتی ہے۔

ایران نے اب اسرائیل کو جوہری دھمکی دی ہے۔ حادثے کے پیچھے کسی سازش کی بات ہوئی تو مکمل سنسنی پیدا ہو جائے گی۔ ایرانی حکومت نے اپنی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ کیا غیر ملکی طاقتوں کے پاس رئیس کے قتل کرنے کی کوئی وجہ تھی؟ ملک کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں ابراہیم رئیسی اتنے بااثر کھلاڑی نہیں تھے۔ چینی ماہرین کو ایرانی صدر کی موت کی وجہ پر شک کیوں کر رہا ہے؟اور ان ممالک کی طرف اشارہ کیا، ترکی کا وہ قاتل ڈرون ہے جس نے ایرانی صدر کا ملبہ ایرانی فوج کے ساتھ مل کراٹھا لیا جو 12 گھنٹے سے ملبہ اٹھانے کے لیے پریشان تھی۔ ایرانی صدر کی موت سے ملک میں اقتدار کی کشمکش شروع ہو سکتی ہے۔ کچھ سیاستدان اس حادثے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ صدر ابراہیم رئیسی کی موت حادثہ میں ہیلی کاپٹرکے پرخچے اڑ گئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت دھند کی وجہ سے ہوئی؟ صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیاہے جس میں کوئی زندہ نہیں بچاہے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی نے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت کا اعلان کیاہے۔ اسرائیلی ربی نے’ رئیسی کی شیطان سے موازنہ کر کے،ان کی موت کو خدا کا انصاف مانا ہے‘! کیا ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثہ کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تو نہیں ہے؟ دفاعی ماہرین نے رئیسی کی موت کے راز سے کئی پردے اٹھا لیے ہیں۔ سپریم لیڈر خامنہ ای نے ایرانی صدر کو خراج تحسین پیش کیا اور اس موقع پر حماس کے سربراہ ہانیہ بھی موجود تھے اور لاکھوں غم زدہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ انہیں 23 مئی کو سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے ساتھ ایرانی وزیر خارجہ سمیت چھ دیگر افراد بھی اس حادثے میں ہلاک ہوئے۔

ایران کے آنجہانی صدر ابراہیم رئیسی کو جمعرات کو ملک کے مقدس ترین شیعہ مزار میں سپرد خاک کیا گیا۔ رئیسی کو مشہد میں امام رضا کے مزار کے اندر ایک مقبرے میں دفن کیا گیا۔ شیعہ برادری کے آٹھویں امام بھی اس درگاہ میں مدفون ہیں۔ اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور انہوں نے سوگ میں سیاہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ رئیس کے تئیں لوگوں کے جذبات اس کے پیچھے ایک ممکنہ اشارہ ہو سکتے ہیں۔ رئیسی حکومت نے 2022 میں مہسا امینی کی موت پر احتجاج کے دوران سخت ایکشن لیا تھا، جس کی وجہ سے کافی لوگ ناراض تھے۔ سرکاری ٹیلی ویزن اور اخباری کوریج میں ہیلی کاپٹر کے حادثے کے ساتھ ساتھ ایران کی مشکلات کا شکار معیشت پر کریک ڈاؤن کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ یہی نہیں، ایران عراق جنگ کے اختتام پر تقریباً پانچ ہزار مخالفوں کے اجتماعی قتل میں رئیسی کے ملوث ہونے پر بھی کبھی بات نہیں کی گئی۔ ان کے قافلے میں تین ہیلی کاپٹر تھے ،لیکن صرف ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا جس میں وہ اور ان کے وزیر خارجہ سفر کر رہے تھے۔ ابراہیم رئیسی کی آخری الوداعی میں پورا ایران رو پڑا! ہندوستان کے نائب صدر جگدیپ دھنکھرنے ایران کے قائم مقام صدر محمد مخبر سے ملاقات کی اورصدرابراہیم رئیسی اوروزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔

ایران پہنچ کر انہوں نے جاں بحق افراد کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس سے قبل رئیسی کے انتقال پر بھارت میں ایک روزہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس۔ جے شنکر نئی دہلی میں ایرانی سفارت خانے گئے اور ہندوستان کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے چند روز قبل صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی اور چابہار بندرگاہ سے متعلق معاہدے پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ مرحوم صدرابراہیم رئیسی نے یورینیم، پیٹرول، خوشحال معیشت اور اسلامی خودمختاری کے لیے ایران کی تاریخ میں اپنا نام کندہ کیا۔ ایران اور بھارت ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات میںرہے ہیں۔ اگلے پچاس دنوں میں نئے ایرانی صدر کے لیے انتخابات ہوں گے۔ ابراہیم رئیسی کو ہندوستان کے دوست کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ بیل 12 ہیلی کاپٹر میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔ امید ہے کہ جلد ہی ایران میں حالات قابو میں آ جائیں گے اور ایرانی عوام دوبارہ اپنی خواہش کے مطابق حکومت کا انتخاب کریں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ا ور سا لیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS