ایران نے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم توڑ دیا: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ایران کے خلاف امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے جس 12 روزہ جنگ کا آغاز کیا تھا اس میں صہیونی ریاست کے ذریعہ طے شدہ اہداف و مقاصد کی روشنی میں اگر اس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ ہزار پروپیگنڈوں اور فتح کے دعووں کے باوجود اسرائیل کو سخت ناکامی ہاتھ لگی اور اس کا ابدی حلیف امریکہ بھی کچھ حاصل نہیں کر سکا۔ فتح کا دعوی تو ایران کا بھی ہے لیکن ہم ایران کا محاسبہ اس لئے نہیں کر سکتے کیونکہ اس جنگ کا آغاز ایران نے نہیں کیا تھا اور اسی لئے اس کے پاس پہلے سے طے شدہ اہداف نہیں تھے۔ اس پہلو سے قطع نظر کہ پروپیگنڈوں کی سطح پر کون فاتح رہا اس بات کا جائزہ موضوعی طور پر ضرور لیا جانا چاہئے کہ اس جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کی کیسی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔ ویسے بھی پروپیگنڈوں سے دور دونوں ملکوں کے قائدین اور ادارے بڑی سنجیدگی سے اس بات پر یقینا غور کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے اس جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ ان کی کمزوریاں کیا رہیں اور کن پہلوؤں سے وہ اپنے حریف یا دشمن پر غالب رہے۔ اس قسم کا بے لاگ جائزہ اور تجزیہ اس لئے ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان سے ہی غلطیوں کے تدارک اور خامیوں کے ازالہ کا موقع ہاتھ آتا ہے۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو وہ فوری طور پر اپنی توجہ اس جانب مبذول کر رہا ہے کہ ان اسرائیلی جاسوسوں کا تعاقب کیا جائے جن کی بدولت صہیونیوں کو ایران میں داخل ہوکر اپنا مشن انجام دینے میں مدد ملی۔ یہ ایران کا سب سے کمزور نقطہ ثابت ہوا اور اسی کی پاداش میں اس کو اپنے اعلیٰ درجہ کے عسکری قائدین اور جوہری پروگرام کے ماہر سائنس دانوں کو کھونا پڑا اور اس کے ملٹری اور جوہری ٹھکانے اسرائیلی حملوں کی زد میں آگئے۔ اسی طرح اسرائیل کو پہلی بار یہ اندازہ ہوا کہ اس کا دفاعی نظام اور آئرن ڈوم جس کا خوف پورے عالم عربی کے دل و دماغ پر اب تک قائم رہا ہے وہ کس قدر پھسپھسا اور ناکافی ہے۔ جب اسرائیل کے شہروں بشمول تل ابیب پر ایرانی میزائلوں کی برسات ہو رہی تھی اور نظام زندگی پورے طور پر معطل ہوچکا تھا اس وقت اسرائیلیوں کی نفسیاتی کیفیت کس قدر خراب رہی ہوگی اس کا بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔’ارض موعود‘ کے نام پر فلسطینیوں کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے صہیونی اسرائیل کو چھوڑ کر بھاگنے میں مشغول ہوگئے اور اپنے ملک سے محبت کا دعوی اسرائیلی آئرن ڈوم کی طرح حقیقی جنگ کے ایک ہی تھپیڑے میں کمزور ثابت ہوگیا۔ اگرچہ نیتن یاہو کو سیاسی فائدہ اس حد تک ضرور ہوا کہ ان کی پارٹی اور خود نیتن یاہو کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا کیونکہ اسرائیلیوں کو یہ سمجھانے میں وقتی طور پر نیتن یاہو کو کامیابی مل گئی کہ ایران جو کہ اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ ہے اس کے پر کتر دیئے گئے ہیں، لیکن کیا اس سے یہ حقیقت بدل جائے گی کہ اسرائیل اپنے دفاع کے لئے خود کفیل نہیں ہے؟ کیا اسرائیل کے عوام کو جب پوری حقیقت معلوم ہوگی تو نیتن یاہو کی سیاست ان کے اندر پیدا ہونے والی مایوسی کے شدید احساس کو روک پائے گی؟

بالکل نہیں۔ دیکھا جائے تو صہیونیوں کے اندر فتح کے اس بھرم کو پیدا کرنے اور اس کو پروان چڑھانے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی بڑا کردار نبھا یا ہے جو لگاتار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے بمبار طیاروں نے ایران کے تینوں جوہری ٹھکانوں پر بالکل ٹھیک ٹھیک نشانہ لگاکر انہیں تباہ کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہوں نے یہ شاندار فتح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر حاصل کی ہے، لیکن کیا ٹرمپ کا یہ دعویٰ کسی اعتبار سے بھی قابلِ اعتناء ہے؟ خود امریکی انٹلی جنس ایجنسی نے اس کی پول کھول دی ہے۔ پنٹاگون کا اہم ادارہ DIA یا ڈیفنس انٹلیجنس ایجنسی نے بتایا ہے کہ امریکی حملوں میں ایرانی جوہری ٹھکانوں کو بس اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کے لئے اس کا جوہری پروگرام پیچھے چلاگیا ہے۔ امریکی میڈیا نے بھی ٹرمپ کے گمراہ کن دعووں کو بے نقاب کیا ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ اپنا آپا کھو بیٹھے اور سخت لہجہ میں صحافیوں کو نشانہ بنایا اور جنونی بن کر امریکی چینلوں اور اخباروں کو سب و شتم کرنے لگے۔ یہی حال اسرائیل کا رہا۔ وہاں کے آزاد میڈیا نے جنگ کے نئے زاویوں کی باتیں کی اور اسرائیل کے خسارہ کو اجاگر کیا۔ ایرانی جوہری پروگرام کو شدید نقصان پہنچائے جانے کی حقیقت بیان کی اور ضرورت سے زیادہ خوش ہونے سے منع کیا۔ اس کے برعکس ایران کی کامیابی یہ مانی گئی کہ اس نے اسرائیل و امریکہ جیسی قوتوں کا تنہا مقابلہ کیا اور اسرائیل کے قلب میں گھس کر اس کے دفاعی آلات نے سخت تباہی مچائی۔ سب سے اہم بات یہ رہی کہ ایران بہت حد تک اپنے جوہری پروگرام کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا۔

حالانکہ اس کو تباہ کرنا ہی امریکہ و اسرائیل کا بنیادی مقصد تھا۔ ایران نے خود ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کو بہت معمولی نقصان پہنچا ہے۔ ایران کا نظام حکومت بھی برقرار رہا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور بن کر ابھرا۔ باوجوداینکہ ایرانی نظام کی تبدیلی دوسرا بڑا مقصد تھا جس کو امریکہ و اسرائیل حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ گویا ایران کے لئے اتنی کامیابیاں ہی بہت زیادہ سمجھی جائیں گی کہ اس نے اسرائیل و امریکہ کو ان کے دونوں اہداف کے حصول سے باز رکھا اور عالمی سطح اپنی ساکھ کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ اس کے اقتصاد کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ایک حقیقت ہے لیکن اسرائیل کو بھی اسی قدر اقتصادی خساروں سے دوچار ہونا پڑا ہے جس کا برا اثر اس کے مالی صحت پر صاف نظر آ رہا ہے۔ اسرائیل نے اس موہوم فتح کا دعویٰ تو کرلیا ہے لیکن اس کا اصل امتحان اس پہلو سے ہو گا کہ کیا وہ مشرق وسطیٰ کو از سر نو تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائے گا جیسا کہ نیتن یاہو کا دعویٰ رہا ہے؟ کیا عرب حکام اور قائدین کے ساتھ مل کر اسرائیل اپنے لئے ایک نیا اتحادی بلاک تیار کر پائے گا جس کا خواب وہ دیکھتا رہا ہے؟

فتح اور جیت کے جتنے دعوے ہیں سب کی حقیقت اسی پہلو سے واضح ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اپنے طور پر خود ہی یہ فیصلہ نہ کرلے کہ اس میدان میں کون فاتح ہوا۔ اس خطہ کے عرب قائدین کا بھی اس دعویٰ کی سچائی پر ایمان رکھنا لازم ہے کیونکہ وہ بھی اس جنگ کے نتائج کا حقیقی تجزیہ کر رہے ہیں اور اسی کے مطابق وہ اپنی سیاست طے کریں گے۔ اگر عرب حکمرانوں کو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوگیا کہ اسرائیل کی طاقت کا بھرم صرف ایک بھرم ہی تھا تو اس کا پورا امکان ہے کہ وہ ابراہیمی معاہدہ جس کے ذریعہ سے ٹرمپ عرب حکام کو اسرائیل کی گود میں بٹھانا چاہتے ہیں یکلخت بے اثر ہوجائے گا اور نئے مشرق وسطیٰ کی تشکیل کا خواب کبھی پورا نہیں ہوپائے گا۔

ایران۔ اسرائیل جنگ کے نتائج کو پیش نظر رکھ کر اس قدر بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امکانی طور پر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں جلد بازی کی غلطی نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ عرب ملکوں کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اسرائیل پر سخت دباؤ بناکر اسے مسئلہ فلسطین کے عادلانہ حل کے لئے مجبور کریں اور غزہ میں ناقابل بیان حد تک جاری رہنے والی صہیونی وحشت ناکی اور فلسطینیوں کے قتل عام کو فوراً بند کروانے میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرے۔ اس جنگ کے نتائج سے عرب ملکوں کو ایک تاریخی موقع یہ بھی ہاتھ آیا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف یک گونہ بغاوت سے کام لیں تاکہ ٹرمپ جیسے لیڈران انہیں ہر موقع پر ذلیل و رسوا نہ کرے۔ اس کا مؤثر طریقہ یہ ہوگا کہ ایران کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوں اور جنگ کے آغاز سے قبل اس کے ساتھ درستگی تعلقات کے جس سلسلہ کو شروع کیا گیا تھا اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ کیونکہ غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف جنگ کی جو پہلی چنگاری شروع ہوئی تھی اور جس کی تپش لبنان، یمن اور شام و ایران تک پہنچی ہے اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ہزار نقصانات، شہداء کی کثرت اور بھوک و پیاس سے تڑپا کر فلسطینیوں کو بے جان کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود اسرائیل اپنا ایک بھی مقصد حاصل کرنے میں اسی طرح ناکام رہا ہے جس طرح وہ ایران کے خلاف جنگ میں نامراد رہا ہے۔

نہ تو حماس کو تباہ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروا پایا ہے۔ غلاف غزہ اور جبل اعلیٰ سے بھاگنے پر جو اسرائیلی مجبور ہوئے تھے وہ آج بھی اپنے گھر نہیں لوٹ پائے ہیں۔ بات چیت کی میٹنگوں میں بھی اسرائیل کو مقاومت کی تحریک کے رو برو اپنی شرطیں منوانے میں زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ عرب ملکوں اور امریکیوں کا دباؤ تحریک مقاومت پر مسلسل جاری ہے، لیکن وہ ان کو توڑنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ ایران و اسرائیل جنگ کا تجزیہ بھی ارباب مقاومت نے بڑی موضوعیت کے ساتھ کیا ہے اور صہیونی و امریکی نفسیاتی جنگ کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے۔ وہ آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ صہیونی دشمن کی جارحیت بند ہو، غزہ کے عوام تک امدادی سامان کی رسائی کو یقینی بنایا جائے اور اسرائیلی فوج کو غزہ سے باہر کی راہ لینی چاہئے۔ غزہ میں جنگ بندی کے جو مثبت آثار پیدا ہو رہے ہیں ان کی حقیقت بھی دو چار دنوں میں سامنے آ جائے گی اور اسرائیل کو اپنے ناقابل تسخیر قوت ہونے کا جو وہم تھا وہ دور ہوجائے گا۔ عرب ملکوں کے لئے یہ سب سے اچھا موقع ہے کہ وہ اپنی تاریخی نفسیاتی خوف کے سایہ سے باہر آئیں اور اس سچائی کو قبول کریں کہ اسرائیل کا مقابلہ اگر ایک مضبوط قوت ارادی والی قوم سے ہو تو وہ اس کو زیر نہیں کر سکتا۔ ایران اور فلسطین کی تحریک مقاومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل کو شکست دی جاسکتی ہے۔ عرب حکام کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک پر امن مشرق وسطیٰ کے لئے اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ اسرائیل ہے اور بہر صورت متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنا اسلامی تہذیب کا اہم تقاضہ ہے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS