ہر بڑے ملک کی یہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے دائرۂ اثر کو وسعت دے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ مستحکم بن سکے، دائرۂ اثر میں اضافے کا فائدہ اسے اقتصادی طور پر بھی ہو۔ اور جن ملکوں سے تعلقات ہوتے ہیں، ان کی مدد براہ راست یا بالواسطہ طور پر کی جاتی ہے۔ غزہ جنگ میں امریکہ کی اسرائیل کو مدد یا روس سے جنگ میں یوکرین کی مدد براہ راست مدد کی مثال ہے۔ اسی طرح روس اور ایران نے شام میں بشارالاسد اور ان کے حامیوں کی مدد کی۔ اب یہ بحث کا الگ موضوع ہے کہ یہ مدد کتنی صحیح یا غلط تھی۔ یوں بھی غزہ جنگ نے کئی ملکوں کے دوہرے معیار کو واضح کر دیا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ کئی لیڈروں کو ڈکٹیٹر کہا گیا مگر ان کے خاتمے یااقتدار سے ہٹ جانے کے بعد ان کے ملک میں حالات بد سے بدتر ہوگئے۔ اس سلسلے میں صومالیہ،سوڈان، عراق، لیبیا، یمن سمیت دیگر ملکوں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ وہاں کے حالات سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ ڈکٹیٹر اپنے عوام کے لیے خراب تھے، اس لیے انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا یا اس وجہ سے انہیں مار ڈالا گیا یا اقتدار سے ہٹایا گیا کہ ان کے رہتے دنیا کے طاقتور ملکوں کو مفاد کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
اب شام کی باگ ڈور بشارالاسد کے ہاتھ میں نہیں ہے، اس کا کیا ہوگا، یہ بتانا مشکل ہے مگر اس پر اسرائیلیوں حملوں کو دیکھتے ہوئے اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ بشار کو اقتدار سے ہٹانے کا اصل مقصد کیا ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان شام کے حالات سے کافی فکرمند تھے، غزہ کے حالات نے بھی انہیں فکر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تھوڑے تھوڑے دنوں پر انہیں اہل غزہ کی حمایت میں یا اسرائیل کے خلاف بیان دینا پڑتا ہے۔ بشارالاسد کے روس چلے جانے اور شام پر اسرائیلی حملوں کے بعد اردگان کو اسی طرح کا بیان شام کے لیے بھی دینا پڑے گا، یہ واقعی ان کے لیے فکر کی ہی بات ہوگی، البتہ ایران نے یہ دکھایا ہے کہ وہ فلسطین کاز کی بات کرتا ہے تو اسلامی دنیا کا نام نہاد لیڈر بننے کے لیے نہیں کرتا، اسے ارض فلسطین اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔
اہل غزہ کے لیے ایران کی طرف سے صرف بیان بازی نہیں ہوئی ہے، اس نے بالواسطہ طور پر اس کا ساتھ دیا ہے، اس لیے بھی وہ ان طاقتوں کے نشانے پر ہے جو فلسطینیوں کے خوابوں کا ملک بننے دینا نہیں چاہتیں۔ ایرانی لیڈران اس بات سے واقف رہے ہیں کہ بشارالاسد میں چاہے جتنی بھی کمی رہی ہو مگر ان کے اقتدار میں رہنے کی فلسطین کاز کے لیے اہمیت تھی، ان کے اقتدار میں رہتے اسرائیل کے لیے شام پر اس طرح کی بمباری کرنا مشکل تھا جیسی بمباری وہ اب کر رہا ہے۔ 11 دسمبر، 2024 کو آنے والی خبر کے مطابق، اسرائیل 48 گھنٹوں کے دوران شام میں 350 سے زیادہ فوجی مقامات پر بمباری کر چکا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ حملوں میں زیادہ تر اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے ذخیرے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ’شام کی حکومت کے شاندار خاتمے کے بعد اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے لیے پڑوسی ملک شام میں فضائی حملے ضروری تھے۔‘اسرائیلی فوج کے بیان میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ’جنگی طیاروں نے شام کے فضائی دفاعی نظام، فوجی ہوائی اڈوں، میزائل ڈپو اور دمشق، حمص، طرطوس، لطاکیہ اور پالمیرا کے شہروں میں ہتھیاروں کے ذخیروں اور فوجی تنصیبات سمیت درجنوں مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔‘سوال یہ ہے کہ بشارالاسد ہتھیاروں کا ذخیرہ لے کر تو روس نہیں گئے ہیں، پھر بشار کو ہٹانے والے اور جانباز سمجھے جانے والے لڑاکے اپنی جرأت و طاقت کا مظاہرہ کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟ انہیں کیسی ٹریننگ دی گئی ہے کہ اپنی کامیابی کو وہ مشکوک بنا رہے ہیں یا وہ کچھ خاص مقصد کے تحت اقتدار میں آئے ہیں؟
بشارالاسد کوئی مثالی لیڈر نہیں تھے۔ ویسے بھی مشرق وسطیٰ میں مثالی لیڈروں کی تلاش بہت مشکل ہے۔ بشارالاسد جمہوریت پسند لیڈر نہیں تھے، مشرق وسطیٰ میں جمہوریت پسند لیڈروں کی تلاش بھی بہت مشکل ہے۔ فی الوقت دیکھنا یہ ہوگا کہ شام سے کن ملکوں کے مفاد وابستہ تھے اور بشار کے علاوہ کن لیڈروں نے شام کے حالات خراب کرنے میں نمایاں رول ادا کیے۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ بشارالاسد کے بعد کے شام کے حالات کیا ہیں، کیونکہ اسرائیل کی بمباری اور بشار مخالف لڑاکوں کے تماشائی سا بن جانے سے شبہات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ان حالات میں ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے الزامات کو بالکل ہی نظرانداز کر دینا آسان نہیں ہے۔ خامنہ ای نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ’شام میں بشارالاسد کی حکومت امریکہ اور اسرائیل کے منصوبے کی وجہ سے ختم ہوئی ہے۔‘11 دسمبر، 2024کو خامنہ ای نے کہا کہ ’شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس منصوبے میں شامل تھا جس نے باغیوں کی پشت پناہی کی۔‘ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ان کا اشارہ ترکیہ کی طرف تھا۔خامنہ ای کے مطابق، ’جو کچھ شام میں ہوا، اس کی بنیادی منصوبہ بندی امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ رومس میں ہوئی۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ شام کی ایک پڑوسی حکومت بھی اس میں ملوث تھی۔‘ ان کی یہ بات ترکیہ کو اس لیے بھی مشکوک بناتی ہے کہ غزہ جنگ میں اردگان بیان بازی سے کام چلاتے رہے ہیں۔ ترکیہ ناٹو کا ممبر ہے۔ اس نے کبھی ناٹو سے علیحدگی کا سنجیدہ اظہار نہیں کیا، البتہ برکس کی رکنیت حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ ترکیہ پر شبہ کی وجہ اس لیے بھی ہے کہ اس پر اسد حکومت گرانے کے لیے باغی گروپوں کی مدد کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اصل میں ترکیہ کے علیحدگی پسند کرد رجب طیب اردگان کے لیے باعث پریشانی رہے ہیں۔ انہیں یہ تشویش رہی ہے کہ شام کے کرد زیادہ مسلح یا طاقتور ہوجائیں گے تو ترکیہ کے لیے خطرہ بڑھ جائے گا، کیونکہ عراق کے کرد پہلے ہی کافی طاقتور بن چکے ہیں لیکن ایسا لگتا نہیں کہ شامیں حالات کی تبدیلی ان کے لیے باعث اطمینان ہوگی۔ ترکیہ کے علیحدگی پسند کردوں کو اگر بشار کی حامی طاقتیں مدد کرنے لگیں تو پھر اردگان کیا کریں گے؟ خامنہ ای نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ’ایران کی زیر قیادت اتحاد خطے میں دوبارہ مضبوط ہو گا۔۔۔۔آپ جتنا دباؤ ڈالیں گے، مزاحمت اتنی ہی مضبوط ہو گی۔آپ کے جرائم جتنے بڑھیں گے، ہمارے عزم میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ آپ اس مزاحمت سے جتنا لڑیں گے، یہ اتنا ہی پھیلے گی۔‘