پروفیسرعتیق احمدفاروقی
دہلی حکومت کے سابق وزیرتعلیم منیش سسودیا صاحب (جوکہ اس وقت جیل میں قید ہیں)نے ایک بیان دے کر سب کو حیران کردیا، وہ بیان یہ تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دہلی یونیورسٹی کے 28ڈگری کالجوں میں اساتذہ کی باقاعدہ تقرریوں کو فوری طور پر روک دیاجائے کیونکہ ا س سے ان کی حکومت پر اقتصادی بوجھ بڑھے گا۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ اقتصادی بوجھ بڑھے گا کیونکہ مستقل اساتذہ کو زیادہ تنخواہ دینی ہوگی جو دہلی حکومت کی مرضی کے خلاف ہے۔ جب ڈگری کالج کسی طرح چل ہی رہے ہیں تودہلی حکومت اس مزید بوجھ کو کیوں اٹھائے؟کیا کسی جدید ملک میں ایسی تنگ ذہنیت والی سوچ کو قبول کیاجاسکتاہے ؟ یہ وہی وزیرتعلیم ہیں جنہیں لگتاہے کہ دہلی کی تعلیم میں اصلاح کا راستہ فن لینڈ سے ہوکر گزرتاہے۔ لہٰذا سبھی اساتذہ کو تربیت کیلئے وہی جانا چاہیے۔ بلاشبہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی تعریف عالمی سطح پر ہوتی ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ وہاں اساتذہ ہی تنہا وی آئی پی ہوتاہے۔
فن لینڈ میں اساتذہ کی ٹریننگ کے ادارے کے داخلہ امتحان میں پاس ہونا ہرنوجوان کا ویسا ہی خواب ہوتاہے جیسا اپنے ملک میں یوپی ایس سی امتحان میں کامیاب ہوناہے۔ وہاں اساتذہ کی تنخواہ کسی دیگر پیشہ میں لگے پیشہ ور سے کم نہیں ہوتی۔ اِن حالات کا موازنہ دہلی حکومت کی اس تشویش سے کیجئے جو اس میں عارضی اساتذہ کی جگہ پر باقاعدہ تقرریوں سے پڑنے والے اقتصادی بوجھ پر جتائی جاتی ہے جبکہ تعلیمی اداروںمیں مستقل اساتذہ کی کمی طلباء کے ساتھ ناانصافی کے ہونے کے ساتھ ہی ملک کے تئیں بھی زبردست لاپروائی ہے۔
ہربیدار ،سرگرم اورروشن خیال ملک اپنے تعلیمی نظام میں مسلسل اصلاح کی کوشش کرتاہے۔ ایسی اصلاح تبھی ممکن ہوپاتی ہے جب سارا نظام یعنی حکومتیں اورادارے اساتذہ کا متوقع احترام کرتے ہیں۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرکے انہیں خوشگوار ماحول میں کام کرنے کی آزادی دیتے ہیں ۔ واضح ہے کہ فن لینڈ کا دورہ کرنے سے ہی تعلیم کی سمجھ بڑھنے اور اس میں اصلاح کے امکان نہیں ہوتے۔اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اساتذہ کی خالی جگہیں بھرنے اورخصوصاً پرنسپل کی تقرری کی ضرورت کی اہمیت بیرونی دوروں کے بعد بھی نہیں سمجھی گئی۔ دراصل مرکزی حکومت نے مرکزی یونیورسٹیوں میں تیز تقرریاں کرنے کی ہدایت دی ہے اور دہلی یونیورسٹی اِسی ہدایت پر عمل پیراہے۔ حالانکہ کئی سطحوں پر تقرریوں کا اختیار ریاستی حکومتوں کے پاس ہے جن سے مرکز محض درخواست کرسکتی ہے۔ ایسے میں مرکز کے ذریعے چلائی جانے والی مرکزی یونیورسٹیوں کو تعلیمی تقرریوں میں قابل تقلید مثال پیش کرنے کی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ان یونیورسٹیوں کو اساتذہ کا انتخاب کرنے میں پوری ایمانداری اور امیدواروں کی قابلیت کا لحاظ رکھنے کے سلسلے میں سبھی کا اعتماد حاصل کرناچاہیے۔
اس وقت دہلی یونیورسٹی میں سبھی سطحوں پر اساتذہ کی تیزی سے ہورہی باقاعدہ تقرریوں کی تعریف دہلی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں ہورہی ہے۔ یہاں تمام نوجوان سالوں سے عارضی طور پر کام کررہے تھے۔ وہ ہرسال تقرری کیلئے نئے انٹرویو کا سامناکرپڑھارہے تھے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول تھی۔ حالات کتنے تکلیف دہ ہوسکتے ہیں اس کی ایک مثال وہ نوجوان ہے جس کا انتخاب 2002میں ایک ملک کے ادارے میں لیکچرر کی پوسٹ پر ہواتھا۔ اس نے اپنے گھریلو حالات کے مدنظر اپنے خاندان کو چھوڑ کر جانا قبول نہیں کیا، تب سے مسلسل عارضی اساتذہ کے طور پر درس وتدریس میں وہ لگارہا۔ کئی سال بعد اسے اب اسی عہدے پر تقرری مل چکی ہے۔ یہ بیس سال کتنے غیریقینی اور ذہنی کشیدگی کے ساتھ گزرا ہوگااس کا اندازہ وہی لگاسکتاہے جس پر گزری ہے۔ اس طریقہ عمل سے جڑانظام نہیں سمجھ پاتاکہ ایسے ہزاروں نوجوانوں کی ذہنی صلاحیت کو کند کرنے والوں نے ملک کے تئیں بھی سنگین جرم کیاہے۔ بیس سالوں میں جو شخص اپنی لیاقت کو نکھار سکتاتھا ، تحقیق اورنئے خیالات پیدا کرنے میں اپنی خدمات پیش کرسکتاتھا ، اپنے خاندان کے تئیں فرائض انجام دے سکتاتھا، اسے مستقبل کے غیریقینی حالات میں ڈھکیل دینے والے کون لوگ ہیں اوروہ ان عہدوں پر رہ کر اپنی نالائقی کا مظاہرہ کیوں کرتے رہے؟ ۔
ابھی تک یونیورسٹیوں میں درس وتدریس کے کام کیلئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لازمی اہلیت رہی ہے۔ اس ڈگری کو حاصل کرنے کے دوران ریسرچ اسکالر اپنی ریسر چ کی خصوصیت کو سمجھتاہے اوروقت کے ساتھ اس کی ریسر چ کی سمت اورسطح بھی طے ہوتی جاتی ہے۔ یہ وقت اگرمایوس کن حالات میں گزارنا پڑے تو نوجوانوں کے خیالات ، سوچنے کی قوت ، جوش اورتخلیقی صلاحیت ماند پڑجاتی ہے جبکہ یہی وہ وقت ہوتاہے جب ملک اپنے نوجوانوں سے نئے خیالات ، تحقیق اورتخلیق میں آگے آکر قومی ذہین عناصر کے اثاثہ میں اضافہ کرنے کی توقع کرتاہے۔ پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے آس پاس ہندوستانی نوجوانوں نے اپنی ذہنی صلاحیت کی جانب پوری دنیا کی توجہ مبذول کی ، جب انہوں نے امریکی خلائی ایجنسی ’ناسا‘میں ذی فہم سائنسی اور تکنیکی کھوج میں زبردست خدمات انجام دیں۔ یہ سلسلہ سلیکن ویلی میں ہندوستانیوں کے چھاجانے تک جاری ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ صدی کی ساتویں -آٹھویں دہائی تک اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں اساتذہ کے عہدے خالی نہیں رہتے تھے۔ اساتذہ کے پاس طلباء کے مسائل کے حل کا وقت رہتاتھا۔ بحث ومباحثہ کیلئے وقت ہوتاتھا جبکہ عارضی اساتذہ کے بڑھتے چلن نے نہ صرف تعلیم کے معیار کو خراب کیاہے بلکہ ریسر چ کی خوبیوںکو بھی نقصان پہنچایاہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ دہلی یونیورسٹی اپنی تقرری کے طریقۂ عمل میں کسی بھی دباؤ یا غیرضروری مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔ بہتر ہوگا کہ دہلی حکومت فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی روح کو سمجھ کر ایسا نظام لائے جس میں اساتذہ کو ہرسطح پر احترام ملے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دہلی یونیورسٹی سے حوصلہ اورقوت لیکر اپنے اسکولوںمیں اساتذہ کے سبھی عہدے باقاعدہ بھردے۔ اگراس نے ایسا کیا تو وہ دیگر ریاستوں کیلئے قابل تقلید مثال پیش کرے گی۔
[email protected]
عارضی اساتذہ کا غیرضروری نظام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS