اسرائیل پر7اکتوبر کے حملہ کے بعد صہیونی نواز حلقوں نے یہودی ریاست کے بیانیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلسل یہ کہنا شروع کردیاکہ غزہ کے فلسطینیوں کو مصر میں ڈھکیل دیا جائے اور کئی حلقوں نے تو اس فارمولے کی مخالفت کرنے پر یہ کہنا شروع کردیا کہ پڑوسی ممالک اس قدر (ہم مذہبوں کے لئے) بے رحم ہیں کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کو قبول کرنے اور ان کو پناہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔اس معاملہ میں ہندوستان میڈیا کے کئی حلقوں نے بھی سر میں سرملاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے 57ملکوں میں سے کوئی ایک ملک یا سب ممالک مل کر اپنے اپنے غزہ کے فلسطینیوں کو غزہ کے برابرایک حصہ تقسیم کرکے دے دیں تاکہ غزہ کے لوگوں کے مسائل اور انہیںآئے دن کی بم باری سے نجات مل سکے، کیونکہ اب بے چارہ اسرائیل ہی ہے جو یہودیوں کا وطن ہے اور مسلمان ان کو اپنے ملک میں ہی چین سے نہیں رہنے دے رہے ہیں۔ اس پر قان دوہ میڈیا کو کون یاد دلائے کہ اسرائیل پورا کا پورا فلسطینیوں کو دربدرکر کے بسایاگیاہے کیونکہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی دنوں اور سا مراجی طاقت کے زور پر برطانیہ اور اس کے حواریوں (اتحادیوں) نے مل کر ارض فلسطین کے کچھ حصے کو اسرائیل کو دے کر ملک کو اس طرح تقسیم کردیا جس طرح ہندوستان کو سامراجی برطانوی سرکار نے 1940کی دہائیوں میں لے لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ لگاتار جارحیت ،تشدد جنگوں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان آج تک امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔ ہندوستان کے دوٹکڑے ہوئے پھر پاکستان کے بھی دوٹکڑے ہوئے اور اس کی مزید ٹوٹنے اورپاکستان مزید بکھرنے کا اندیشہ قائم ہے۔ پاکستان کے کئی ٹکڑے ہوسکتے ہیں ۔بلوچستان میں غریب اور مختلف طبقات میں رنجشیں اس قدر شدید گہری ہوگئی ہیں اوروہاں مختلف طبقات ایک دوسرے کو ختم اور نیست ونابودکرنے پر آمادہ ہیں۔
بہرکیف آج کی صورتحال میں یہ باور کراناہے اور ان ’’دوراندیش‘‘ یرقان دوہ خودساختہ صحافیوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ قرب وجوار کے پڑوسی عرب ممالک کے علاوہ کئی ملکوں میں فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد ،بے بس ،بے سروسامان کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔اقوام متحدہ کا ایک ادارہ اقوام متحدہ ریلیف ورکس ایجنسی فار فلسٹائن رفیوجی ان دی نیئرایسٹUnted National Relisf and Wroks Agency for Palistine Refugees in the Near east(یو این آر ڈبلیو اے) ہے جو لبنان ،اردن اور شام میں سرگرم ہے۔ اس ایجنسی کے تحت 56ملین فلسطینی رجسٹررڈہیں ، اس کے علاوہ ایک ادارے کے رفیوجی میں جو مقبوضہ فلسطین( یعنی اسرائیل) میں رہتے ہیں اور ان کو ایک الگ زمرے میں رکھاگیا ہے۔ یہ فلسطینی Internally displaced Person(آئی ڈی پی ایس) کہتے ہیںکہ وہ مہاجرین ہیں جو1947تا 1949کے درمیان لازمی طور پراپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے تھے۔مگر یہ لوگ ابھی اسی سرزمین میں رہتے ہیں جس کا نام اسرائیل رکھا گیاہے۔یہ وہ لوگ ہیں جس کو اپنے آبائی مکانات میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ان کو اپنے ہی علاقوں میں رہنے کی اجازت ملی ہوئی ہے ، مگر اپنے گھروں سے بے دخل کردیاگیاہے۔ ان لوگوں کے لئے الگ اصطلاح ، غیر حاضرAbsenteesقرار دیاگیاہے۔1948میں ان بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 274000تھی، ان شہریوں کی نگرانی کرنے والے ادارے Internally displaced Personکے مطابق یہ آبادی بھی ہے۔بعدازاں یہ آبادی 2007میں 150,000اور 420,000,274,000کے درمیان رہ گئی تھی۔اگرچہ ان مہاجرین میں مسلمانوں کا تناسب 90فیصد ہے اور دس فیصد عیسائی تھے، جو زمرے کے مہاجرین میں آتے ہیں۔انٹرنل ڈسپلیمنٹ مانیٹرنگ سینٹرInternal Displacemant Monitoring centerارض فلسطین(مقبوضہ فلسطین) میں اس زمرے کے مہاجرین کی 2015کے اعداد وشمار کے مطابق ان مہاجرین کی تعداد 263,500ہے۔
1948میں عرب فلسطین کی جنگ میں 700,000 فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکلنے کے لئے مجبور کیاگیا تھا۔ یہ لوگ عرب اردون ،غزہ کی پٹی کے علاوہ لبنان اور شام منتقل ہوگئے تھے۔1967کی چھ دن کی جنگ میں ان مہاجرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔آج فلسطینیوں کی سب سے بڑی تعداد 2,000,000اردن میں رہتی ہے۔عرب اردن غزہ میں جو فلسطینی رہتے ہیں وہ بھی رفیوجی ہی ہیں۔شام میں فلسطینی رفیوجیوں کی تعداد 500,000بتائی جاتی ہے اور اتنے ہی فلسطینی لبنان میں رہتے ہیں۔شام کی حکومت نے انہیں وہی حقوق اور درجہ دے رکھا ہے جو اپنے شہریوں کو دے رکھا ہے۔یہ فلسطینی شام کی افواج میں بھی شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد نمبر194پاس ہوئی تھی ، اس قرار داد کے مطابق فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں لوٹنے کا حق دیاگیاہے۔ترکیہ کے ایک ادارے انسامر Insamer کے مطابق پوری دنیا میں فلسطینی مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد513,795لبنان میں رہتی ہے۔ اردن میں 203مہاجرین اور شام میں 438,00مہاجرین رہتے ہیں۔
فلسطینی مہاجروں کے سنگین مسائل کی ان دیکھی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS