سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):جموں کشمیر میں تعینات فوج نے اپنی نوعیت کے پہلے واقعہ میں اپنے ایک یونٹ کو طاقت کا بے تحاشا استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے اور اسکے خلاف کارروائی کئے جانے کا اشارہ دیا ہے۔ فوج نے تسلیم کر لیا ہے کہ جولائی کے وسط میں جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں جن تین نوجوانوں کو ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے ’’نا معلوم جنگجو‘‘قرار دیا گیا تھا وہ دراصل راجوری کے تین مزدور تھے جو روزی روٹی کمانے کیلئے وادیٔ کشمیر آئے ہوئے تھے۔
18جولائی کو شوپیاں کے امشی پورہ میں ہونے والا یہ ’’اینکاونٹر‘‘تب متنازعہ ہوگیا تھا کہ جب اس میں مارے جانے والے’’نا معلوم جنگجوؤں‘‘ کی تصاویر کی شناخت کرکے راجوری کے تین خاندانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ انکے ان تین لڑکوں کی ہیں جو شوپیاں میں مزدوری کر رہے تھے کہ اچانک غائب پائے گئے۔یہ معاملہ ماہ بھر سے زیرِ تحقیقات چلا آرہا ہے تاہم ڈی این اے نمونوں کی جانچ میں حیران کُن تاخیر ہورہی ہے۔
فوج نے آج اس حوالے سے ایک مختصر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات مکمل ہوچکی ہے جس سے یہ بات سامنے آی ہے کہ بظاہر فوج نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ 1990(افسپا)کے تحت حاصؒ اختیارات کا بے تحاشا استعمال کیا ہے اور چیف آف آرمی اسٹاف کی تجویز اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی منظور کردہ ہدایات (ڈوز اینڈ ڈونٹس)پر عمل نہیں کیا گیا ہے‘‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن میں شامل رہنے والی فوج کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات دئے جاچکے ہیں۔
بیان میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ آپریشن میں مارے گئے جن تین نوجوانوں کو نا معلوم جنگجو بتایا گیا تھا وہ راجوری کے رہنے والے امتیازاحمد، ابرار احمد اور محمد ابرار نامی نوجوان ہیں۔فوج کے مطابق ان تینوں کے ڈی این اے کی جانچ کی رپورٹ آنا اب بھی باقی ہے۔
یہ غالباََ پہلی بار ہے کہ جب فوج نے متنازعہ ہونے والے اپنے کسی آپریشن میں اپنی خامیوں کا اعتراف کیا ہے حالانکہ یہ کہکر ،کہ مارے جاچکے نوجوانوں کے ملی ٹینسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اب بھی تحقیقات جاری ہے، فوج نے قصور واروں کیلئے اب بھی بچ نکلنے کا ایک راستہ باقی چھوڑا ہوا ہے۔
18جولائی کے متنازعہ شوپیاں اینکاونٹر کی تحقیقات مکمل ، جنگجو بتاکر مارے جانے والوں کے عام مزدور ہونے کا فوج نے کیا اعتراف!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS