ڈرانے لگے ہیں تیور بدلتے سمندر

0

انسان کا مزاج بدلتا ہے تو اس کا اچھا یا برا اثر معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن یہ زمین جس کی سطح کا 71 فیصد حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے اور اس پانی میں سمندروں، یعنی ساگروں اور مہاساگروں، کا پانی 96.5 فیصد ہے تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر کوئی سمندر تیور دکھانے پر آ جائے تو اس کی کتنی بھاری قیمت اس دنیا کو جانی اور مالی نقصان کی شکل میں چکانی پڑے گی۔ اسی لیے انسانوں کی شروع سے ہی سمندروں سے دلچسپی رہی ہے، وہ انہیں ڈراتا بھی رہا ہے اور ان کے لیے راحت افزا بھی رہا ہے۔ جلد ہی انسانوں نے سمندر کے راستے دوردراز کے علاقوں کا سفر کرنا سیکھ لیا تھا، یہ سمجھ لیا تھا کہ تجارت کے لیے سمندر کا راستہ سستا ہے۔اسی لیے انہوں نے تجارت کے لیے آبی گزرگاہوں کا انتخاب کیا اور آج بھی دنیا کی تقریباً 80 فیصد تجارت سمندر کے راستے ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیا کے بڑے شہر سمندر کے کنارے آباد کیے گئے، بڑی بندرگاہوں والے شہروں کی بڑی اہمیت رہی اور آج بھی ہے مگر جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ سمندر انسانوں کو ڈراتا بھی رہا ہے تویہ سچ ہے، کیونکہ وہ تیور دکھانے پر آجاتا ہے، اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر آجاتا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے اوپر جہاز کون سی چل رہی ہے، اسے کشتی کی طرح پلٹنے میں اسے تاخیر نہیں لگتی۔ اس وقت اس کے پانی کا ابال، اس کی لہروں کا جنون ہیبت ناک ہوتا ہے اور یہی لہریں اگر اپنی حدوں کو پار کرنے پر آجائیں تو ان کے سامنے کوئی بھی آہنی دیوار کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت عقلمندی اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ اس کی لہروں کے دائرۂ اثرسے جتنی جلدی اور جتنی زیادہ دوری اختیار کی جائے، اتنا ہی بہتر ہے اور اسی پر بپرجوائے طوفان کی آمد کی خبر سن کر حکومت ہند نے توجہ دی ۔ اسی لیے بڑی تعداد میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکا اور ہزاروں لوگوں کی جانیں بچانے میں کامیابی ملی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندر اپنے تیور بدل رہے ہیں؟ اس کا ایک جملے میں جواب دینا مشکل نہیں ہے۔ دو برس قبل 2020کے آخری ماہ کے ابتدا میں سمندری طوفان ’نِوار ‘ آیا تھا۔ یہ اس سال کا 124 واں سمندری طوفان تھا۔ اس گردابی طوفان ’نوار‘کے آنے کی وجہ سے ہندوستان کے شہر چنئی کے ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن اور دیگر جگہوں پر پانی بھر گیا تھا۔ پدوچیری کے ساحل سے ٹکراتے وقت اس طوفان کی رفتار 140 کلو میٹر فی گھنٹے تھی۔اس کی وجہ سے زیادہ لوگوں کی جانیں نہیں گئی تھیں۔ 5 لوگوں کی جانوں کے اتلاف کی ہی خبر آئی تھی، البتہ مالی نقصان کروڑوں روپے کا ہوا تھا۔ اس گردابی طوفان کی بڑی دہشت تھی اور اس طرح کے گردابی طوفان کی دہشت ہوتی بھی ہے جیسے بپرجوائے طوفان کی بھی دہشت کم نہیں تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ اس طوفان کی تباہ کاری سے بچانے کے لیے کام کرنے والوں نے شاندار کام کیا ۔ ’نِوار طوفان‘ کے آنے کے بعد ہندی،اردو اور دیگر زبانوں کے مشہور کالم نگار پنکج چترویدی نے بجا طور پر یہ لکھا تھا کہ ’اب سمجھنا ہوگا کہ یہ (طوفان) ایک محض قدرتی آفت نہیں ہے، اصل میں تیزی سے بدل رہے نیچر کے مزاج نے اس طرح کے طوفانوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ سمندر کے پانی کی حدت میں جتنا زیادہ اضافہ ہوگا اتنا ہی زیادہ طوفانوں کی مار ہمیں جھیلنی پڑے گی۔
یہ انتباہ ہے کہ انسان نے نیچر کے ساتھ چھیڑچھاڑ پر کنٹرول نہیں کیا تو سائیکلون یا طوفان کی وجہ سے ہندوستان کے ساحل پر بسے شہروں میں عام لوگوں کی زندگی دوبھر ہو جائے گی۔‘ پنکج چترویدی نے آگے لکھا تھا کہ ’ماحولیاتی تبدیلی پر 2019 میں جاری انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائی میٹ چینج (Intergovernmental panel on climate change) یعنی ’’آئی پی سی سی‘‘ کی خاص رپورٹ اوشین اینڈ کرایواسفیئر اِن اے چینجنگ کلائی میٹ (Ocean and Cryosphere in a Changing Climate) کے مطابق، پوری دنیا کے سمندر 1970 سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج سے پیدا شدہ 90 فیصد سے زیادہ حدت کو جذب کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ سے سمندر گرم ہو رہے ہیں اور اسی وجہ سے طوفان جلدی جلدی آرہے ہیں اور ان کا خطرناک چہرہ سامنے آ رہا ہے۔ ’نوار‘ طوفان سے پہلے خلیج بنگال میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندر کا پانی عام درجۂ حرارت سے زیادہ گرم ہو گیا تھا۔ اس وقت سمندر کی سطح کا درجۂ حرارت اوسط سے تقریباً 0.5-1 ڈگری سیلسیئس زیادہ گرم تھا، کچھ علاقوں میں یہ تقریباً 1.2 ڈگری سیلسیئس زیادہ گرم تھا۔ جان لیں کہ سمندر کے درجۂ حرارت میں 0.1 ڈگری سیلسیئس کے اضافے کا مطلب ہے طوفان کو زیادہ توانائی کی فراہمی۔‘n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS