شاہد زبیری
یونائیٹڈ نیشن نے 1992میں 18دسمبر کو عالمی یومِ اقلیت قرار دیا تھا اور د نیا بھر کی نسلی ، مذہبی ،لسانی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کی شناخت کے لحاظ سے یہ دن ایک اہم دن قرار پایا تھا ۔ اسی حوالہ سے دنیا بھر کی اقلیتیں اور سرکاریںاس دن کو مناتی آرہی ہیں ۔ آج سے ایک دن بعد 18دسمبر کو ہمارے ملک سمیت دنیا بھر میں یومِ اقلیت منایا جائے گا ۔ یو نائیٹڈ نیشن کا اس دن کو عالمی یومِ اقلیت قرار دئے جا نے کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس دن یہ جائزہ لیا جائے کہ عالمی سطح پر نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیت اس ملک کی اکثریت کے جبرو تشدد سے کا شکا ہو نے سے محفوظ ہیں کہ نہیں ۔ افسوس صد افسوس اگر دنیا کے نقشہ پر سرسری نظر ڈالیں گے توکوئی ملک ایسا نظر نہیں آئے گا جہاں نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتیں اکثریتی جبرو تشدد کا شکار نہیں بنا ئی جا رہی ہیں تنہا امریکہ کی مثال کافی ہے جہاں کچھ سال قبل ایک سفید فام نسل کے پولیس افسر نے اقلیت کے ایک سیاہ فام کی گردن پر گھٹنا رکھ کر جان لے لی تھی اگرہم برّصغیر کے ممالک کی بات کریں جو کبھی ایک تھے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش ان ممالک کی اقلیتوں کے حالات پرنظر ڈالیں تو ا قلیتیں کہیں کم کہیں زیادہ اکثریتی جبر تشدد کا کا شکار بنائی جا تی رہی ہیں ۔
پاکستان میں اقلتیں کس حال میں ہیں بچشم ِ خود 2013میں پاکستان کے سفر کے دوران میں نے اس کا مشاہدہ کیا تھا ۔ لاہور اور اسلام آباد میں اقلیتی فرقوں ہندو ،سکھ اور عیسائی فرقوں کے جن افراد سے بات چیت سے کی تھی سب نے امتیازی سلوک اور جبر وتشدد کی شکایت کی تھی دیگر اقلیتوں میں احمدی ( قادیانی) کے علاوہ شیعہ مسلم اقلیت بھی ہر سطح پر وہاں سنی مسلمانوں کی اکثریت کے جبرو تشدد کا شکار رہی ہے۔ اس پر میرا ایک تفصیلی مضمون’ آنکھوں دیکھا پاکستان ‘جون 2013میں روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ہفت روزہ ضمیمہ ’ امنگ ‘میں شائع ہوا تھا۔اقلیتوں کے ساتھ معاملات میں بنگلہ دیش کا ریکارڈ پاکستان کے مقابلہ بہتر مانا جا تا تھا لیکن عومی لیگ کی شیخ حسینہ کے اقتدار سے بیدخل کئے جا نے اور ملک سے فرار ہو نے کے بعد ان کی پارٹی کے کارکنان کے ساتھ ظلم زیادتی کا جو دور چلا اس کی زد میں عوالی لیگ کے ہندو کا رکنان کبھی آگئے اتنا ہی نہیں مبیّنہ طور پر ہندو مندروں کو بھی نقصان پہنچا یا گیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کی اقلیتوں کا سوال ہے یہاں بھی مسلم اور عیسائی اقلیتیں سخت آزمائش سے گزررہی ہیںجب کہ ہندستان کے بیدار مغز ،انصاف پسند آئین ساز کمیٹی کے ارکان نے ہندوستانی اقلیتوں کے مذہبی حقوق اور مذہبی شناخت کے علاوہ لسانی حقوق کا بھی پختہ آئینی ضمانت کا بندو بست کردیا تھا۔ان اقلیتوں میں اس وقت مسلم ،سکھ، عیسائی ،بودھ پارسی اقلیتیں شامل تھیں ۔بعد میں جین مذہب کے مطالبہ پران کو بھی اقلیت کا درجہ دیدیا گیا تھا ۔یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلمان اور عیسائی اقلیّت کو چھوڑ کر جین،سکھ اور بودھ اقلیت ہوتے ہوئے بھی قانونی لحاظ سے ہندئووں میں ہی شامل مانی جا تی ہیں اور ان کو ہندو ہی مانا جاتا ہے جو اپنے آپ میںایک تضاد ہے۔ عالمی سطح پر اقلیت کا جو پیمانہ مقرر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے کسی بھی سماج کا وہ حصّہ جس کی آبادی سماج کی اکثریّت کا نسلی، مذہبی ،ثقافتی ،یا کلچر کے لحاظ سے نصف یاکم ازکم 20فیصد ہے اس کو اقلیت تسلیم کیاگیا ہے ۔ لسانی اعتبار سے کوئی بھی ایسی زبان جس کو 10فیصد لوگ بولتے ہیں ان کو لسانی اقلیت مانا گیا ہے ۔ مذہبی بنیاد پر دیکھا جا ئے تو ہندو ملک کے کئی صوبوں میں اقلیت کے زمرہ میں شمار کئے جا تے ہیں اور ان کا تناسب میزورم میں 2.75فیصد ، ناگا لینڈ میں 8.75فیصد،میگھا لیہ میں 11.53فیصد، جموں وکشمیر میں 28.44 فیصد، اروناچل پردیش 29 میںفیصد ،منی پور میں 31.39فیصد اور پنجاب میں 38.40 فیصد ہے ۔ آئین میں دی گئی اقلیتوںکی آئینی ضمانت کی بات کریں تو دفعہ 29 (1) کے مطابق اقلیتوں کو اپنی زبان اس کا اسلوب (خط) اور تہذیب وثقافت اور کلچر کے فروغ اور اس کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے ،دفعہ 30(1)کے لحاظ سے اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں ان کا انتظام وانصرام کرسکتی ہیں حکومت مداخلت نہیں کرسکتی اور ایڈ بند نہیں کرسکتی ،دفعہ 25 مذہبی آزادی دیتی ہے اور دفعہ 26 مذہبی ادارے بنانے اور ان کو قائم رکھنے کے حق کی ضامن ہے۔کہنے کو اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کیلئے قومی اقلیتی حقوق کمیشن بھی ملک میں موجود ہے کمیشن کے عہدیداران اور اراکین حکو مت نامزد کرتی ہے ۔قانونی لحاظ سے کمیشن کو بہت سے اختیارا ت ملے ہوئے ہیں لیکن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لحاظ سے عملی طور پر کمیشن کی کارکردگی مایوس کن رہتی ہے خواہ وقومی ہو یا ریاستی اقلیتی کمیشن حکومت کے اشارئہ ابر و کے تحت کام کرتے ہیں۔ آئینی تحفظات اور اقلیتی کمیشوں کی تشکیل کے بعد بھی اقلیتوں خاص کر مسلم اقلیت کے ساتھ بلا امتیازجماعتوں اور پارٹیوں کے سرکاروں کا جو جارحانہ رویہ چلا آرہا ہے وہ صاف ہے ۔ ملک کے اکثریتی طبقہ کی شدّت پسند اور فرقہ پرست تنظیمیں اقلیتوں کے تئیں دشمنی اور نفرت کے جذبات کو فروغ دیتی آرہی ہیں اب تک تو ان کا اثر نفوذ سرکاروں اور سرکاری اداروں تک محدود تھا اب عدلیہ میں بھی یہ زہر سرائت کرتا جا رہا ہے ملک کے سابقہ اور موجودہ حالات اس کے گواہ ہیں۔آزادی کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے لا متناہی سلسلہ میں فرقہ پرست تنظیموں،پولیس اور پیرا ملٹری فورسز اور سرکاروں کے ظلم و زیادتی کوجمشید پور سے لیکر بھاگل پور تک ،ملیانہ ہاشم پورہ سے لیکر 2002کے گجرات کے بھیانک فسادمیں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔مسلم اقلیت جن قیامت خیز حالات سے گذر رہی ہے اس کو چشمِ بینا دیکھ سکتی ہے ۔ ملک کی اکثریت کا انصاف پسند طبقہ اس کیخلاف اپنی آواز بلند کرتا آ رہا ہے جو صدا بہ صحراء ثابت ہورہی ہے ۔یہاں 1984کے سکھ مخالف فساد کا بھی زکر ضروری ہے جس میں سکھ اقلیت کے لوگوں کو زندہ جلا دینے سے بھی فرقہ پرستوں نے گریز نہیں کیا تھا ،عیسائی اقلیت بھی ظلم و تشدد کا شکار بنائی جاتی رہی ہے۔ چرچ جلائے جاتے ہیں، ان کوزد وکوب کیا جاتا ہے ۔ مسلم اقلیت کے جان ومال کے ساتھ تعلیمی اداروں کا اقلیتی درجہ دائو پر لگا ہے اور ان اداروں کی اقلیتی شناخت خطرہ میں ہے ۔مسلم یو نیورسٹی اس کی مثال ہے جس کے اقلیتی کردار پر ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے ۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی حصّہ داری نہ کے برا بر ہے پولیس ہو کہ جوڈیشیری یا حکومتیں ان میں مسلم اقلیت کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ،پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل گھٹ رہی ہے ۔ حکمراں جماعت بی جے پی کا کوئی بھی مسلم ممبر نہ پارلیمنٹ میں ہے نہ راجیہ سبھا میں دوسری پارٹیاں بھی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی نہیں دیتی ہیں یہ عام شکایت ہے۔ مسلم اقلیّت کے ساتھ بی جے پی سرکار کے امتیازی رویہ پر پار لیمنٹ کے رواں اجلاس میںیومِ آئین پر بحث کے دوران سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے ٹھیک کہا کہ موجودہ بی جے پی سرکار مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنا نا چا ہتی ہے ،کانگریس کی پرینکا گاندھی نے بھی سنبھل کے حوالہ سے مسلمانوں پر پولیس کے ظلم و تشدد کا مسئلہ بیباکی سے اٹھا یا ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ 2014 کے بعد سے تو ملک میں نفرت کی آندھی چل رہی ہے جس کا رخ مسلم اقلیّت کیطرف ہے۔ ہائی کورٹ کے سٹنگ’ مائی لارڈ‘ جسٹس شیکھر یادو نے مسلم اقلیت کے بارے میں جو ارشاد کہا وہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ عدالتیں پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کے باوجود مسجدوں ،مندروں ،درگاہوں اور خانقاہوں کے نیچے مندروں کو کھوجنے کیلئے سروے آرڈر پاس کررہی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے 2ماہ کی عارضی پابندی لگا ئی ہے خود اس ایکٹ کے وجود کو فرقہ پرستو ں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ۔حکمراں جماعت اور فرقہ پرست اور شدت پسند ہندو تنظیمیں ملک کی فضا میں یہ جو زہر گھول رہی ہیں اس پر سوال اٹھائے جارہے ہیں لیکن بی جے پی کے مسلمانوں کا ضمیر اب بھی نہیں جا گا کیا انہوں نے مسلم سماج سے خود کو لاتعلق کر لیا ہے آخر وہ اس پر کیوں سوال نہیں اٹھاتے ہر محب وطن کو سوال اٹھا نا چاہئے ، یہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، یکجہتی اور اتحاد کا سوال ہے جس کیلئے نفرت ایک سنگین خطرہ ہے۔