لبنان اس وقت بدترین اقتصادی اور سیاسی بحران کے دور سے گزررہاہے۔ طویل عرصہ تک خانہ جنگی کا شکار لبنان میں غربت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہاں غیرمعمولی انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ سماجی بے چینی، کرپشن، اقرباپروری اوربدنظمی کی وجہ سے حالات پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سڑکوں پردکھائی دینے لگا ہے۔ بطور ملک ایک ناکام ریاست کی طرف بڑھتا لبنان اس قدر شدیدبحران کی زد میں ہے کہ فوج کو تنخواہ دینے تک کے لیے سرکار کے خزانہ میںکچھ نہیں بچا ہے۔سیاسی عدم اتفاق کی وجہ سے تمام آئینی ادارے پرفائزشخصیات نہ صرف عبوری حیثیت سے کام کررہے ہیں بلکہ وہ فیصلہ کن رول ادا کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ اکتوبر2022سے صدر کا عہدہ خالی ہے، صدر کا عہدہ خالی ہونے کی وجہ سے وہاں وزیراعظم اور کابینہ کی تقرری نہیں ہورہی ہے۔ فرانس، امریکہ اور دیگرپڑوسی عرب مسلم ممالک کسی حد تک اقتصادی مدد فراہم کررہے ہیں مگر کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی خارجی طاقت لبنان کے تندور میں گھس کر آگ بجھانے کے لیے تیارنہیں ہے، کیونکہ ملک میں حکومت اورایک طاقتور اورخودمختار فوج کی عدم موجودگی میں عیسائیوں، مسلمانوں، شیعہ اور سنی کے مسلح گروہ (ملیشیا) سرگرم ہیں۔یہ بحران سیاسی بحران کی وجہ سے اور شدید ہوگیا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے وہاں ممبران پارلیمنٹ صدر کو نہیں چن سکے ہیں اور صدر اور حکومت کے انتظام وانصرام کو ایک کارگزار انتظامیہ ہی چلا رہی ہے۔ سابق جنرل اور صدر آعون کے صدارتی میقات کے خاتمہ کے بعد وہاں ابھی تک کوئی بھی سیاست داں اس منصب پر فائز نہیں ہوسکا ہے۔ صدر کا عہدہ عیسائیوں کے لیے مختص ہے اور حزب اللہ نے عہدئہ صدارت پراعتراضات کیے ہیں جس کی وجہ سے فی الحال اس عہدے پر تقرری ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ اقتصادی بحران کو ختم کرنے پرآمادہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) سابق وزیر اقتصادیات اور آزاد ممبرپارلیمنٹ جہاد آزرو (Jihad Azour)کو صدر بنانے کے لیے کوشش شروع کردی۔ جہاد آزورکو فری پیٹریاموومنٹ (Free Patriotic Movement)اور دیگر عیسائی جماعتوں کی حمایت مل گئی ہے۔ جبکہ حزب اللہ لبنان کے سینئر عیسائی لیڈر سلیمان فرانگ(Suleiman Fraangh)کو صدر بنوانا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ کے عیسائیوں کے لیے مختص عہدیدار کی تقرری کے معاملہ پر عیسائی فرقہ میں ناراضگی ہے۔ حزب اللہ کا کسی عیسائی لیڈر کی تقرری پر اس طرح کا سخت موقف پریشان کن ہے۔ عیسائیوں میں اور لبنان میں سیاسی تعطل کی وجہ سے وہاں اکتوبر 2022سے صدر کا عہدہ خالی ہے۔ اس دوران لبنان کے سرحدوں پر اسرائیل کی سرگرمی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنارہی ہے۔ کئی حلقوں کو لگتا ہے کہ لبنان میںآئی ایم ایف کی حمایت والا صدر ملک کے اقتصادی بحران کو ختم کرسکتاہے جبکہ حریف مکتب فکر کا کہنا ہے کہ خارجی حمایت والا کوئی بھی عہدیدار مستقبل میں کئی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتاہے۔n
داخلی سیاست اور اقتصادی بحران
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS