پڑوسی ممالک کے داخلی و اقتصادی بحران

0

ہندوستان کے پڑوسی ملکوںمیں حالات پرامن نہیں ہیں۔ ان میں سیاسی اتھل پتھل، داخلی خانہ جنگی اور اقتصادی بحران جیسے عوامل نے پورے خطے کو عجیب الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سری لنکا کا اقتصادی بحران جوکہ خطے کی بڑی طاقت اور سیکورٹی کونسل کے ویٹو پاور کے حامل چین کی نظرکرم اورنوازشوںکے مرہون منت رہا ہے۔ کئی سال سے سری لنکا کی داخلی سیاست نے اس پورے ملک کو بدترین اقتصادی بحران سے دوچارکر رکھا ہے۔ ہمارے سب سے اہم پڑوس ملک پاکستان میں کبھی بھی سیاسی استحکام نے نہیں رہا۔مگر وہاں کی فوج جمہوری طورپر منتخب حکومت کو آزادی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیتی اور یکے بعددیگرے مختلف سیاسی گروپوں اور پارٹیوںکو شہ اور سرپرستی نواز کر اپنی پالیسیوں پر عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے اور جونظام حکومت، مکتب فکر یا سیاسی جماعت فوج کے اشاروںپر کام نہیں کرتی ان کے لئے پریشانی کھڑی کردی جاتی ہیں۔ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل قمرجاوید باجوا نے عوامی طورپر منتخب حکمرانوں کی کیا درگت بنائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نواز شریف کو سخت حالات میں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا اور جلاوطن کی ایک طویل زندگی دیارغیر میں گزارنی پڑی۔ آج عمران خان اوران کی پارٹی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہے۔پاکستان میں اس سیاسی کھیل کے پیچھے فوج ہے اور امریکہ ہمیشہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو سرپرستی سے نوازتا رہا ہے اورکبھی بھی اس نے پاکستان کے قومی حکمرانوں پر زور نہیں ڈالا کہ وہ ملک میں جمہوریت کومضبوط کریں۔
اگرچہ کئی مسلم ملکوں میں یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہاں کی سیاسی قیادت فوجی یا دفاعی قیادت کے دست نگر رہ کر کام کرتی ہے، مگر کئی ملک فوج کے استبداد سے بچ کر کافی حد تک جمہوری نظام قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، ان میں سب سے اہم مثال ترکی کی ہے، جہاں طیب اردگان کی سیاسی جماعت نے بڑی مشاقی اور دوراندیشی کے ساتھ مغربی ممالک کی پروردہ فوجی طاقت کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے اس کا مقام یاد دلا دیا۔ ترکی میں ایک طویل عرصے تک سیاسی قیادت پر وہاں کی فوج اور بالواسطہ طورپر مغربی ممالک بالخصوص ناٹو ملک حاوی رہے ہیں۔ مگر گزشتہ تقریباً دودہائی میں ترکی کا سیاسی منظرنامہ بالکل بدل گیا ہے۔ جبکہ ہمارا پڑوسی ملک پاکستان کا سیاسی نظام ابھی بھی فوج کے دست نگر ہے۔ گزشتہ تین چار انتخابات میں یہ اندازہ لگایا جاچکا ہے کہ فوج انہی سیاسی لیڈروںکو اہمیت اورسانس لینے کی اجازت دیتی ہے جوکہ اس کے اشاروں کو سمجھتے ہیں۔ عمران خان کا حشر سب کے سامنے ہے۔ اس سے قبل نواز شریف اور کسی حد تک پرویز مشرف کا دور بھی انہی خطوط پر اقتدار میں آتا اور بے دخل ہوتا رہا ہے۔
ہمارے پڑوس کے ایک اور ملک بنگلہ دیش میں سیاسی اتھل پتھل کاانداز بالکل جداگانہ ہے۔ وہاں فوج سیاسی امورمیں زیادہ دلچسپی بظاہر نہیں لے رہی ہے،مگر شیخ حسینہ واجد نے پورے سیاسی منظرنامے کو اس طریقے سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ وہاں پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد بھی مشکل اورمشکوک ہوگیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا اگرچہ مغربی ایشیا، یوکرین کے بحران میں مصروف ہے مگر بنگلہ دیش میں جوکچھ سیاسی اتھل پتھل ہورہی ہے اس پر امریکہ بہادر ناراض بتائے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد لگاتار چوتھی مرتبہ برسراقتدارآئی ہیں۔ ان کا اقتدار میں آنا ان معنوں میں معنی خیز ہے کہ بنگلہ دیش کی بڑی سیاسی پارٹی جوکہ وہاں کی کلیدی اپوزیشن پارٹی بھی ہے انتخابی عمل سے دور رہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے جس منمانے طریقے سے بنگلہ دیش کی آئین میں ترمیم کی ہے اس پر جمہوریت پسندوں نے ناگواری کا اظہار کیا ہے اورحال ہی میں جو انتخابات ہوئے ہیں ان کی غیرجانبداری پر کئی سوال کھڑے کئے گئے ہیں۔ امریکہ بنگلہ دیش کے موجودہ حکمرانوںسے ناراض ہے۔ امریکہ کی رائے ہے کہ غیرجانبدارانہ اصولوںکو نظرانداز کرکے شیخ حسینہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوںکو کچل رہی ہیں اور پورے سیاسی منظرنامے پر ان کی گرفت غیرجمہوری اور مطلق العنان ہونے والی ہے۔ بنگلہ دیش جوکہ کافی حد تک اپنی روایتی اقتصادی پسماندگی کو دورکرنے میں کامیاب رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگلہ دیش کی معیشت کو امریکہ، برطانیہ اوراسی طرح کے دیگر ممالک کی سرپرستی حاصل تھی۔ بنگلہ دیش کا ٹیکسٹائل اور فیبریکیشن کا سیکٹر اس قدرمضبوط اورمنظم ہوگیاتھا کہ پورے ملک کی معیشت پٹری پر آگئی تھی، مگر اب حالات بالکل دوسری سمت جارہے ہیں۔ وہ مغربی ممالک خاص طورپر امریکہ اوربرطانیہ جوکہ بنگلہ دیش میں بنی مصنوعات کی بڑی مارکیٹ تھیں، سیاسی قیادت ناراضگی کی وجہ سے سکڑتی جارہی ہیں۔ اس کا اثر بنگلہ دیش کی مجموعی معیشت پر براہ راست پڑ رہا ہے۔ اندرونی اتھل پتھل کی وجہ سے بنگلہ دیش میں اس سیکٹر کو نقصان پہنچا ہے اور وہاں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے اس سیکٹر میں مزدوروں کے حقوق کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگنے لگے ہیں۔
بہرکیف امریکہ کی توجہ اورناراضگی کی وجہ سے بنگلہ دیش داخلی میدان پر بحران کا شکار ہے، جبکہ بیگم حسینہ واجد کے تعلقات ہندوستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش کے قیام میں جو رول ادا کیا ہے، موجودہ حکمراں پارٹی اوراس کی لیڈرشپ اس کی قدر کرتی ہے۔ ہندوستان اوربنگلہ دیش کے تعلقات حسینہ واجد کے دورمیں بہتر ہورہے ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت اپنے آپسی تعاون سے ایک دوسرے کے مسائل بطورخاص اقتصادی امورمیں تعاون کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی قیادت سے پنگا لے کر بنگلہ دیش کس حد تک اپنے سیاسی اور اقتصادی امورکو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کو بہتر طورپر بین الاقوامی برادری کے اشکالات کو سمجھنا ہوگا۔ بنگلہ دیش کی معیشت مغربی ممالک کو ہونے والے ایکسپورٹ سے عبارت رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں شیخ حسینہ واجد امریکہ اور مغربی ممالک کی ناراضگی کو کس حد تک کم کرنے میں کامیاب ہوںگی۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ امریکہ کی نظر سیدھی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں بنگلہ دیش کی قیادت کے سامنے ایک بڑا راستہ ہندوستان کے ساتھ تعاون اور تال میل بڑھاکر اپنے مسائل کو حل کرنے کا ہی بچتا ہے۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS