عمرخالد ایک نوجوان جو اظہار رائے کی آزادی کو اپنا جمہوری حق سمجھ کر ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوا،گزشتہ چار برسوں سے عدالتوں میں اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہا ہے۔ 18 دسمبر 2024 کو دہلی کی ایک عدالت نے اُسے عبوری ضمانت دی،تاکہ وہ اپنی بہن کی شادی میں شرکت کرسکے۔ لیکن یہ ضمانت صرف سات دنوں کیلئے دی گئی ہے اور اس پر کڑی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں،جن میں عدالت کو اپنے قیام کی اطلاع دینا اور کسی عوامی جلسے یا سیاسی سرگرمی سے گریز کرنا شامل ہے۔ ان شرائط نے اس کی آزادی کو مزید سلب کر لیا ہے اور یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ جب شواہد کی کمی ہوتو ایک فرد کو اتنے سخت حالات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
ستمبر 2020 میں عمر خالد کو دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ فسادات کی سازش میں ملوث تھے۔ 2020 کے فروری میں ہونے والے فسادات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور عوامی و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ حکومت اور پولیس کا دعویٰ تھا کہ عمر خالد اور ان کے ساتھیوں نے شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران اشتعال انگیزی کی،جس کے نتیجے میں یہ المناک واقعات رونما ہوئے۔ لیکن ان الزامات کی بنیاد انتہائی کمزور تھی،جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیاسی انتقام قرار دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ کیس حکومت کی جانب سے اختلاف رائے کو دبانے کی ایک مثال ہے۔ عمر خالد پر یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا قانون) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا،جو ایک متنازع اور سخت قانون ہے۔ اس قانون کے تحت ضمانت حاصل کرنا تقریباً ایک ناممکن عمل ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمر خالد چار سال سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ اس کا واحد ’’قصور‘‘ یہ تھا کہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر رہا تھا اور آئینی حقوق کے بارے میں آواز اٹھا رہا تھا۔ اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا، مگر اس کے باوجود وہ کئی برسوں سے قید میں ہے۔ کیا یہ جمہوریت کی روح کے خلاف نہیں کہ وہ شخص جو آئین کے تحت اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے،اسے مجرم بنا دیا جائے؟
عمر خالد کا کیس ایک آئینہ ہے،جو یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح حکومت اور طاقتور افراد اپنے مفاد کیلئے قانون کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف جمہوری اقدار کی پامالی ہے،بلکہ عوامی حقوق پر حملہ بھی ہے۔
عبوری ضمانت کا فیصلہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے خلاف الزامات کی کوئی مضبوطی نہیں،لیکن یہ انصاف کا مکمل حصول نہیں،بلکہ ایک عارضی ریلیف ہے۔ عدالت نے ان کی نقل و حرکت کو محدود کیا اور عوامی اجتماعات میں شرکت پر پابندی عائد کی،جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سسٹم مظلوموں کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے ان کی جدوجہد کو مزید مشکل بناتا ہے۔
ایک جمہوری نظام میں عدالتوں کا غیر جانبدار رہنا اور حکومت کے دبائو سے آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر عدلیہ خود سیاسی اثرات کے تحت فیصلے کرے گی تو انصاف محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ عمر خالد کا معاملہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ہندوستان حقیقت میں ایک جمہوری ملک ہے یا یہاں طاقتور طبقات کی حکمرانی قائم ہو چکی ہے؟
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بار بار اس مقدمے کو مسترد کیا ہے اور اسے اختلاف رائے کو دبانے کی ایک سازش قرار دیا ہے۔ ان تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ عمر خالد کو فوری طور پر انصاف فراہم کیا جائے اور ان کے خلاف الزامات ختم کیے جائیں۔
جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری کو آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہو۔ اختلاف رائے جمہوریت کی جڑ ہے اور اس پر قدغن لگانا عوامی حقوق کی پامالی ہے۔ عمر خالد کا کیس ایک نمونہ ہے کہ کس طرح طاقتور حلقے قانون کا استحصال کر سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ عوام،عدلیہ اور انسانی حقوق کے علمبردار اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ ایک ایسا نظام قائم کیا جا سکے جو حقیقی معنوں میں انصاف فراہم کرے اور جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کرے۔