شاہد زبیری
یوپی کے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اس مرحلہ میں اضلاع کے 10 کارپوریشنوں کے مئیرس اورنسلر وں کے علاوہ میونسپلٹی اور ٹائون ایریاکے چیئر مین اور میونسپل و ٹائون ایریا کے ممبران کے انتخابات کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے جبکہ دوسرے مرحلہ کی پولنگ 11مئی کو ہوگی جسمیں باقی بچی میئر کی 7سیٹوں،میونسپلٹی اور ٹائون ایرایا کے چیئرمین اور ممبران کی پولنگ ہو گی اور 13مئی کو پولنگ کے بعد تصویر صاف ہو جا ئیگی کہ لوکل باڈیز میں کون سرکار بنا ئیگا ۔ ماضی میں یو پی کی سرکار پر کسی بھی قبضہ رہا ہولیکن بلدیاتی انتخابات میںیو پی میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی پہلے جن سنگھ اور بعد میں بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے اس کی وجہ یہ رہی کہ بی جے پی شہری علاقوں کے تاجروں او رکاروباری حلقوں میں اچھا خاصا اثر اور رسوخ رکھتی رہی ہے جو آج پہلے سے کافی زیادہ ہے ۔2014کے بعد سے تو بی جے پی نے دیہی علاقوں میں بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔یوپی کے پنچایت اور بلاک پرمکھی کے انتخابات بھی اسکا ثبوت ہیںبلاک پرمکھی اورپنچائتوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے اور اکثر اضلاع کی پینچائتوں کے چیئر مین بھی بی جے پی کے ہیں۔کہنے کو بلدیاتی انتخابات چھوٹی اکائی کے انتخابات ہیں کل ان کی اہمیت اتنی نہ ہو لیکن آج کے سیاسی تناظر میں ان انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی ہے خاص طور پر میئر کے انتخابات بی جے پی کی ناک کا مسئلہ تو ہیں ہی 2024کے پارلیمانی انتخابات میں بھی میئر کے انتخابات اہم کردار ادا کریں گے اور بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ میئر کے انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کی کامیابی اس کیلئے دلّی کی مسند پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے بہت مددگار ہوگی اسی لئے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ شہر در شہر کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں اسکی وجہ ایک یہ بھی ہیکہ2017کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے میئر کی کل 16سیٹوں میں سے 14پر قبضہ کیا تھا اور علیگڑھ اور میرٹھ کے میئر کی 2سیٹیں بی ایس پی کے کھاتہ میں گئی تھیں ۔وزیرِ اعلیٰ کیلئے میئر کی 14سیٹوں پر قبضہ برقرار رکھنا ان کیلئے ایک بڑا چیلج ہے لیکن جو اطلاعات مل رہی ہیں کہ اس مرتبہ بی جے پی گرچہ پہلے سے زیادہ مضبوط حالت میں دکھا ئی دے رہی ہے اور بلدیاتی انتخابات کو جسطرح فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا اور پولرائزیشن کیا گیا ہے وہ بھی اس کیلئے ہر انتخاب کیطرح بلدیاتی انتخاب میں بھی سنجیونی ثابت ہورہا ہے ۔عتیق احمد اوران کے بھائی کو بظاہر پولس حراست میں 3ٹرینڈ شوٹروں کے ذریعہ ہلاک گیا اور جس کیلئے یو گی سرکار کو کٹگھڑے میں کھڑا کیا گیا اور سرکار نے بظا ہر اس سے پلّہ جھاڑدیا لیکن بی جے پی کے ووٹر بھی یہ مانتے ہیں کہ یہ کارنامہ یوگی سرکار نے ہی انجام دیا ہے سیاسی لحاظ سے وہ چاہے انکار کررہی ہے اسی طرح عتیق احمد کے جواں سال بیٹے اسعد کا پولس انکائنٹر یو گی سرکار کا گڈ ورک مانا گیا ۔اسی طرح ایک ہی کنبہ کے 3مبیّنہ مافیائوں کی ہلاکت کا سہرہ یو گی سرکار کے ہی سر بندھا جس سے بلدیاتی انتخابات نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا اور پولرائزیشن بھی آسانی سے ہو گیا ۔ یو پی میں 2012میں سماجوادی پارٹی کی اکھلیش سرکار تھی اس وقت میئر کی کل سیٹیں 12تھیں جنمیں سے 10پر بی جے پی نے جیت درج کرا ئی تھی بعد میں 2017میں ان سیٹوں میں 4سیٹوں کا اضافہ ہوا اور کل 16سیٹوں پر انتخاب ہوا جسمیں سے بی جے پی نے 14پرکامیابی حاصل کی تھی ۔2023کے بلدیاتی انتخابات میںفیروز پور کی سیٹ کے اضافہ کے بعد اب کل 17سیٹوں میں سے 10پر پولنگ ہو چکی ہے باقی 7سیٹوں پر 11مئی کو پولنگ کرائی جا ئیگی صرف 2دن بچے ہیںلیکن جو اطلاعات مل رہی ہیں اس کے مطابق ان 17میں سے میئر کی 5سیٹوں پر بی جے پی اور یوگی سرکار کوسخت مشکل کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ان میں سہارنپور ،آگرہ ،متھرا اور جھانسی میں بی جے پی کو بی ایس پی سخت ٹکر دے رہی ہے جبکہ مرادا باد میں کانگریس بی جے پی کے مدِّ مقابل ہے اس مرتبہ مراداباد میں عوام نے سماجوادی پارٹی کی بجا ئے کانگریس کے پلڑے میں وزن ڈالا ہے اگر ان 5سیٹوں میں2سیٹیں بھی بی جے پی کے ہاتھ سے پھسل گئی تو بی جے پی اور جوگی جی کیلئے بڑا جھٹکا ہو گا اگر دونوں سیٹیں بی ایس پی کھاتہ میں چلی گئیں تو مسلمانوںمیں سماجوادی کی سا کھ کو ٹھیس پہنچے گی اور بی ایس پی کی مسلمانوں میں گرفت مضبوط ہو گی بی ایس پی نے مسلمانوں میں اپنی کھوئی ہو زمین کو پھر سے حاصل کرنے کیلئے مئیر کے 11مسلم امیدوار میدان میں اتا رے ہیں دیکھنا یہ ہیکہ ان میں سے کتنے کامیاب ہو تے ہیں ۔ سماجوادی پارٹی کی اگر بات کریں تو بریلی کی میئر سیٹ پر سماجوادی پارٹی بی جے پی کیلئے چیلینج ہے ، شاہجہاں پور میں سماجوادی پارٹی نے جس امیدوار کو ٹکٹ دیا اس نے بی جے پی کا دا من تھام لیا ،فیروز اباد اور اٹاوہ میں میں سماجوادی پارٹی کے قداور لیڈر شو پال یادو گھر گھر گئے ۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ مغربی یو پی میں سماجوادی پارٹی کا اثر مشرقی یو پی کے مقابلہ بہت کم ہے یہاں یادو برادری نہ کے برا بر ہے جبکہ دلت اور مسلم ووٹر فیصلہ کن طاقت رکھتے ہیںہر چند کہ جاٹ ووبرادی پر لوکدل کا اثر ہے اور سماجوادی پارٹی اور لوکدل متحد ہو کر بلدیاتی انتخابات لڑ رہے ہیں ذرائع کے مطابق سیٹوں کے بٹوارے کو لیکر لوکدل اور سماجوادی پارٹی میں اندرونی طور پر کھینچ تان جا ری ہے جبکہ مغربی یو پی میںبی ایس کے کاڈر جاٹو برادری کاووٹ بی ایس پی کے علاوہ بعض استثناء کو چھوڑ کر ادھر ادھر نہیں ہوتا اس مرتبہ اس نے پھر دلت مسلم کارڈ کھیل کر سماجوادی پارٹی کو مشکل میں ڈالدیا ہے ۔سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی دونوں زیادہ تر سیٹوں پر مسلمان میدان اتارے ہیںاور زیادہ تر سیٹوں پر بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی بی جے پی کو ہرا نے کی بجا ئے باہم دست و گریباں دکھا ئی دے رہی ہیں ۔دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے امید وار کو ہرا نے کیلئے جی جان سے لگی پڑی ہیں بی ایس پی سپریمومایا وتی نے اپنے بنگلہ سے باہر قدم نہیں نکا لے ہیں جبکہ اکھلیش یادو ایک سے زائد مقامات پر روڈ شو کر چکے ہیں ان کی پوری کوشش ہیکہ جن 5سیٹوں پر بی ایس پی بی جے پی کو ٹکر دے رہی ہے ان میں سے کسی سیٹ پر بی ایس پی کو کامیابی نہ ملے۔ سماجوادی پارٹی بلدیاتی انتخابات خاص طور پر میئر کے انتخابات میں کبھی کچھ زیادہ بہتر نہیں کر پائی اس مرتبہ بھی اس کی حالت کچھ زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتی کسی ایک سیٹ پر اس کے امیدوار ضرور جیتے ہیں جیسے مرادا باد کی سیٹ جہاں اسکا میئر رہ چکا ہے بی ایس پی میئر کی 2سیٹوں پر اپنی جیت درج کراتی رہی ہے اور کچھ سیٹوں پر وہ نمبر دو پر رہی ہے ۔اس صورتِ حال سے یہی لگتا ہیکہ دونوں پارٹیوں کو ڈر ہیکہ ان میں سے کسی کا امیدوار نہ جیتے اس لئے کہ ان میں جس پارٹی کا امیدوار میئر کی سیٹ پر کامیاب ہو گیا تو اس کا پیغام اس کے حق میں بہتر ہوگا اور4 202 کے انتخابات میں اسکا فائدہ یا نقصان ہوگا یہی بات بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بناتی ہے۔سماجوادی پارٹی کو 2022کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے یکمشت ووٹ دیا تھا لیکن سماجوادی پارٹی پھر بھی سرکار نہیں بنا سکی ۔بلدیا تی انتخابات میں مسلم ووٹر کو بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی دونوں نے کنفیوز کردیا جس سے مسلم ووٹوں میں بکھرا ئو صاف دکھا ئی دے رہا ہے رہی سہی کسر ان انتخابات میں مسلم علاقوں میں سرکار ی مشینری کے غلط استعمال اور پولس کی بیجا سختی اورالیکشن کے ضابطہ کی خلاف ورزی نے پوری کردی ہے جس کے الزامات لگ رہے ہیں بی ایس پی کے پارلیمانی لیڈر اور امروہہ کے ممبر پارلیمینٹ کنور دانش علی نے الزام لگا یا ہیکہ بی جے پی نے بلدیا تی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں ووٹوں کی لوٹ کی ہے اس سے پہلے بلاک پرمکھ کے انتخابات میں بھی اس نے ووٹوں کی لوٹ مچائی تھی ۔ایسا ہی الزام کانگریس بھی لگا رہی ہے ،سہارنپور کی میئر سیٹ پر سرکاری مشینری کے غلط استعمال کا معاملہ خوب اچھا لا جا رہا ہے ۔