ہرگزرتے دن کے ساتھ مہنگائی کے عذاب کی شدت میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ حکومت ایک طرف معیشت میں بہتری کامژدہ جاںفزا سنارہی ہے تو دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتو ں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے عوام کی ہڈیوں کا بھی گودا نچوڑ لینے کے درپہ ہے۔ دو دن قبل ہی حکومت کی جانب سے اعلان کیاگیا تھا کہ جی ڈی پی کی شرح میں مثبت اضافہ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ گزشتہ ایک سال کے نقصان کا ازالہ بھی کر لیاگیا ہے۔ٹھیک اس کے اگلے دن سے تیل کمپنیوں نے 14.2کلو گرام والے ایل پی جی رسوئی گیس سیلنڈر کی قیمت میں یکمشت25روپے اور19کلو گرام والے کمرشیل سیلنڈرکی قیمت میں75روپے کا ظالمانہ اضافہ کردیا۔
کہاں تو مرکزی دفتر شماریات(سی ایس او) یہ دعویٰ کررہاتھا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 20.1 فیصد درج کی گئی ہے جو معیشت کی بہتری اور قیمتوں کے استحکام کی جانب پیش رفت کا اشارہ ہے۔لیکن اس کے برعکس قیمتوں میں اچھال آگیا۔ سی ایس او کے مطابق گزشتہ سال جون کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی جی ڈی پی کا تخمینہ 26.95لاکھ کروڑ روپے لگایا گیا تھا جو کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بڑھ کر 32.38لاکھ کروڑ روپے ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو -24.4فیصد تھی، دوسری سہ ماہی میں نمو کی شرح -7.4 فیصد پر آگئی، تیسری سہ ماہی میں معیشت منفی نمو سے باہر نکلی اور ترقی کی شرح 0.5فیصد درج کی گئی، چوتھی سہ ماہی میں شرح نمو1.6فیصد بڑھ گئی اور اب رواں مالی سال2021-22کی پہلی سہ ماہی میں اچانک اچھال کا مژدہ سناکر اس کی شرح 20.1فیصد بتائی گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ہی ایام میں جب معیشت بہتری اورا ستحکام کی طرف رواں تھی، مہنگائی میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا۔جس دن شرح نمو20.1فیصدبتائی گئی ٹھیک اس کے اگلے دن رسوئی گیس کی قیمت بڑھا دی گئی۔ اسی ایک برس کے دوران پٹرولیم مصنوعات، رسوئی گیس اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ ہوتا رہاہے۔ سال رواں کے آغاز میں 14.2کلو گرام والے ایل پی جی رسوئی گیس سیلنڈر کی قیمت694روپے تھی اور جی ڈی پی کی بڑھتی شرح کے ساتھ اس کی قیمت بھی بڑھ کر آج 885روپے ہوگئی ہے۔ یہی حال پٹرولیم مصنوعات کا بھی رہا ہے۔اب پورے ملک میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر ایک سو روپے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ڈیزل بھی عین اسی کے نقش قدم پر ہے۔
یہ صورتحا ل ایسی ہے کہ معیشت کے ماہرین بھی حیرت زدہ ہیں۔ ماہرین سوال کررہے کہ معیشت کے سادہ سے اصول کے مطابق مہنگائی میں کمی و بیشی طلب و رسد کے غیر متوازن ہونے پر منحصر ہیں لیکن ہندوستان میں پٹرولیم مصنوعات اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس اصول کے بالکل ہی برخلاف ہے۔ ان دونوں اشیا کی طلب میں نہ تو کوئی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی ان کی رسد میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔اس کے برخلاف لوگوں کی قوت خرید میں کمی ضرور آئی ہے۔ پھر ان کی قیمتو ںمیں اچھال کا کیا سبب ہے ؟
ان دونوں اشیا کی قیمت بڑھنے کا راست اثر عوام کی روز مرہ کی زندگی پر پڑرہاہے۔ کورونا بحران کی وجہ سے بازار، کاروبار، کل کارخانے اب بھی بند ہیں۔ لاکھوں لوگوں کا روزگار چھن چکاہے اور لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جن کی تنخواہوں میں بھاری کٹوتی ہوگئی ہے۔ یومیہ کام کرنے والوں کے کام دھندے ختم ہوگئے ہیں۔ عوام کے کم و بیش تمام طبقوں کے سامنے اپنی آمدنی ا ور خرچ میں توازن رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
ایندھن کی قیمتیں بڑھنے سے روزمرہ کے استعمال کی دوسری چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ پیداوارکی لاگت، ڈھلائی وغیرہ پر خرچ بڑھ جاتا ہے جس کاخمیازہ عام آدمی کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف کمائی لگاتار کم ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف روزمرہ کے اخراجات اور کھانے پینے پر خرچ بڑھ رہاہے۔ بچوں کی تعلیم سے جڑے درجنوں اخراجات سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان حالات میں معیشت میں بہتری کا مژدہ سناکر مہنگائی کا بم پھوڑنا عوام کے ساتھ کھلا ظلم ہے۔بہتر تو یہ ہوگا کہ حکومت عوام کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں الجھاکر فرضی ترقی کے قصے سنانے کے بجائے معیشت کے استحکام اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔مہنگائی میں کمی اور معیشت میں استحکام کا دنیا بھر میں ایک ہی آزمودہ اور مسلمہ طریقہ ہے اور وہ ہے عوام کی قوت خرید میں اضافہ۔اس اضافہ کیلئے ماہرین معاشیات روزگار کے مواقع بڑھانے کی تجویز دیتے ہیں، بہتر ہوگا کہ حکومت اس جانب توجہ دے اور عوام کی مشکلات کا حل نکالے۔
[email protected]
مہنگائی کا طوفان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS