مہنگائی اور شرح نمو: توازن برقرار رکھنے کی کوشش

0

ستیش سنگھ

مہنگائی اور شرح نمو کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے تجزیہ میں ریپو ریٹ کو 6.5فیصد کی شرح پر جوں کا توںرکھا ہے۔ اس سے قبل فروری، 2023میں اس میں اضافہ کیا گیا تھا۔ ریزرو بینک آف انڈیا خاص طور پر ریپوریٹ میں اضافہ کرکے مہنگائی سے نبردآزما ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ریپوریٹ زیادہ ہوتا ہے تو بینکوں کو ریزرو بینک سے مہنگی شرح پر قرض ملتا ہے، جس کے سبب بینک بھی صارفین کو مہنگی شرح پر قرض دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے معیشت میں کرنسی کی لیکویڈیٹی کم ہوجاتی ہے اور لوگوں کی جیب میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اشیاء کی ڈیمانڈ میں کمی آتی ہے، اشیاء اور مصنوعات (گڈس اینڈ پروڈکٹس) کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی فروخت میں کمی آتی ہے، جس سے مہنگائی میں کمی درج کی جاتی ہے۔ اسی طرح معیشت میں نرمی رہنے پر ترقیاتی کاموں میں تیزی لانے کے لیے بازار میں کرنسی کی لیکویڈیٹی میں اضافہ کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لیے بھی ریپوریٹ میں کٹوتی کی جاتی ہے، تاکہ بینکوں کو ریزرو بینک سے سستی شرح پر قرض ملے اور سستی شرح پر قرض ملنے کے بعد بینک بھی صارفین کو سستی شرح پر قرض دیں۔
موجودہ وقت میں مہنگائی کی شرح حکومت اور ریزروبینک کے لیے تشویش کا سبب ہے۔ کیئر ایج ریٹنگ کے مطابق قرض کی شرح کے نرم ہونے کے باوجود مالیاتی سال 2023-24 میں قرض کی شرح میں اضافہ 16فیصد کے آس پاس رہاہے اور مالیاتی سال 2024-25میں اس کے 14سے 14.5فیصد کے درمیان رہنے کا اندازہ ہے۔ ایسی صورتحال ہندوستانی معیشت کے لیے بے حد مثبت ہے۔ حالاں کہ اسے غیرمعمولی صورتحال کہا جاسکتا ہے۔ بہرحال، قرض دینے کی رفتار میں تیزی قائم رہنے کی وجہ معاشی سرگرمیوں اور شرح نمو، دونوں میں تیزی آرہی ہے۔ اسی وجہ سے ریزروبینک نے مالیاتی سال 2025کے لیے اپنے ترقی کے تخمینے کو 7.00فیصد سے بڑھا کر 7.2فیصد کردیا ہے۔ مالیاتی سال 2023-24کی چوتھی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 7.8رہی جبکہ گزشتہ سال کی ایک ہی سہ ماہی/یکساں سہ ماہی میں 6.1فیصدرہی تھی۔ وہیں، مالیاتی سال 2023-24میں جی ڈی پی کی شرح نمو 8.2فیصد رہی جو ریزرو بینک کے اندازہ سے 1.2فیصد زیادہ ہے یعنی ریزرو بینک نے مالیاتی سال 2023-24 کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو کا اندازہ 7فیصد لگایا تھا۔ گزشتہ مالیاتی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 7فیصد رہی تھی۔ وزارت شماریات (ministry of statistics) کے مطابق مینوفیکچرنگ اور کانکنی کے شعبہ میں مضبوط مظاہرہ سے رپورٹنگ کی مدت میں شرح نمو تیز رہی۔ مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں 9.9فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو مالیاتی سال 2022-23میں مائنس2.2فیصد رہی تھی۔ کانکنی کے شعبہ میں مالیاتی سال 2023-24 کے دوران 7.1فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا، جو مالیاتی سال 2022-23 میں 1.9فیصد رہا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار نبھاتا ہے۔ خردہ افراط زر ابھی بھی تشویش کی بات ہے۔
ماہ مئی میں تھوک مہنگائی بڑھ کر 15مہینوں کی اوپری سطح 2.61فیصد کی سطح پر پہنچ گئی جبکہ فروری، 2023میں یہ 3.85رہی تھی۔ وہیں اپریل 2024میں یہ 1.26فیصد رہی جو 13ماہ کی اعلیٰ ترین سطح تھی۔ مارچ، 2024میں یہ 0.53رہی اور فروری ماہ میں 0.20فیصد۔ قومی شماریاتی دفتر(National Statistical Office)نے 12جون، 2024کو خردہ مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کیے تھے، جس کے مطابق مئی ماہ میں خردہ مہنگائی 4.75فیصد رہی جو 12ماہ کی نچلی سطح تھی۔ اپریل ماہ میں خردہ مہنگائی میں کچھ کمی آئی تھی، لیکن وہ مئی کے ماہ سے تھوڑی زیادہ 4.83فیصد کی سطح پر تھی۔ جون، 2023 میں خردہ مہنگائی 4.81فیصد تھی جبکہ جولائی، 2023میں یہ4.44فیصد رہی تھی۔ مہنگائی کا راست تعلق پرچیزنگ پاور یا قوت خرید سے ہے۔ مثال کے طور پر اگر افراط زر کی شرح 6فیصد ہے تو کمائے گئے 100روپے کی قیمت صرف94روپے ہوگی۔ اس لیے مہنگائی کی سطح کے مطابق سرمایہ کاروں کو انویسٹ کرنا چاہیے ورنہ انہیں منافع کم ملے گا۔ مہنگائی کا بڑھنااور کم ہونا مصنوعات کی ڈیمانڈ-سپلائی پر منحصر کرتا ہے۔ اگر لوگوں کے پاس پیسے زیادہ ہوں گے تو زیادہ مصنوعات خریدیں گے اور زیادہ مصنوعات خریدنے سے ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا اور ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی نہیں ہونے پر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح، بازار مہنگائی کے دائرہ میں پھنس جائے گا۔ بازار میں پیسوں کا زیادہ بہاؤ یا مصنوعات کی کمی مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ وہیں اگر ڈیمانڈ کم ہوگی اور سپلائی زیادہ ہوگی تو مہنگائی کم ہوگی۔ صارفین خردہ بازار سے سامان خریدتے ہیں اور بازار میں موجود مصنوعات کی قیمتوں میں ہوئی تبدیلی کو ناپنے کا کام کنزیومر پرائس انڈیکس(سی پی آئی) کرتا ہے۔ مصنوعات اور خدمات کے لیے جس اوسط قیمت کی ادائیگی کی جاتی ہے، سی پی آئی اسی کو ناپتا ہے۔ کچے تیل، مصنوعات کی قیمتوں، تعمیر کی لاگت کے علاوہ کئی دیگر چیزیں بھی ہوتی ہیں، جو خردہ افراط زر کی شرح کو طے کرنے میں اہم کردار نبھاتی ہیں۔ موجودہ وقت میں تقریباً 300مصنوعات ایسی ہیں، جن کی قیمتوں کی بنیاد پر خردہ افراط زر کی شرح طے ہوتی ہے۔ اس طرح کسی کی قوت خرید کو مقرر کرنے میں مہنگائی اہم کردار نبھاتی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ پر اشیاء اور خدمات، دونوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے فرد کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور مصنوعات اور خدمات کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔ پھر، ان کی فروخت کم ہوجاتی ہے، ان کے پروڈکشن میں کمی آتی ہے، کمپنی کو خسارہ ہوتا ہے، ورکرس کی چھٹنی ہوتی ہے، روزگار کے مواقع میں کمی آتی ہے وغیرہ۔ اس سے اقتصادی سرگرمیاں سست پڑجاتی ہیں اور ترقی کی رفتار میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
گزشتہ کچھ ماہ سے لینڈنگ انٹرسٹ ریٹ کے اعلیٰ سطح پر قائم رہنے کے باوجود قرض کی تقسیم میں تیزی ہے اور شرح نمو کی رفتار بھی تیز ہے۔ ویسے ایسی صورت غیرمعمولی ہے۔ ایچ ایس بی سی انڈیا کے پی ایم آئی اعدادوشمار مئی، 2024میں 57.5پوائنٹ رہے، جو اپریل ماہ میں 58.8پوائنٹ تھے، وہیں کمپوزٹ پی ایم آئی مئی، 2024 میں 60.50پوائنٹ تھا، جو اپریل 2024میں 61.50پوائنٹ رہا تھا۔ اعدادوشمار سے واضح ہے کہ اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی قائم ہے۔ ہندوستان میں مہنگائی سینٹرل بینک کے ذریعہ طے شدہ قابل برداشت حد(Tolerance range) کے اندر ہونے کے باوجود تشویشناک سطح پر ہے۔ اس لیے ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعہ مالیاتی جائزہ میں پالیسی کی شرح کو جوں کا توں رکھا گیا ہے۔ مہنگائی کے تعلق سے سینٹرل بینک بہت زیادہ حساس ہے اور یہ مہنگائی اور شرح نمو کے درمیان توازن بناکر معیشت کو مضبوط رکھنا چاہتا ہے، تاکہ عام آدمی کو پریشانی بھی نہ ہو اور ترقی کی رفتار بھی تیز رہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS