سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):شمالی کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی)کے مختلف سیکٹروں میں گذشتہ روز ہوئی بدترین گولہ باری میں کئی انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے اگلے دن آج محبوبہ مفتی نے ہندوپاک کی قیادت پر’’سیاسی مجبوریوں‘‘ سے بالا تر ہوکر سوچنے کیلئے زور دیا۔جموں کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ دونوں ممالک کو آنجہانی وزیرِ اعظم واجپائی اور سابق پاکستانی صدر جنرل مشرف کی پالیسی کی جانب لوٹ کر انسانی خون کی ارزانی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں محبوبہ مفتی نے کہا ’’ایل او سی کی دونوں جانب ہورہی ہلاکتیں غمناک ہیں۔کاش بھارتی اور پاکستانی قیادت اپنی سیاسی مجبوریوں سے اوپر اٹھ کر مذاکرات شروع کرے۔جنگبندی،جس پر واجپائی جی اور مشرف صاحب کا اتفاق ہوچکا تھا،کی بحالی ایک بہتر شروعات ہوسکتی ہے‘‘۔
محبوبہ مفتی کا یہ بیان جمعہ کو ایل او سی کے مختلف سیکٹروں میں ہندوپاک افواج کے بیچ ہوئی حالیہ دنوں کی بدترین گولہ باری کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔گولہ باری،جسکے لئے دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام لگانے میں مصروف ہیں،میں سات سال کے ایک کمسن سمیت زائد از نصف درجن افراد مارے گئے ہیں جن میں ایک افسر اور ایک جوان بھی شامل ہیں۔انڈین آرمی نے پاکستان پر اور پاکستانی فون نے انڈین آرمی پر ’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے تاہم دونوں جانب سے’’منھ توڑ جواب‘‘ دینے کے فخریہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔ایل او سی پر حالانکہ بیچ بیچ میں گولہ باری کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں تاہم دفاعی ذرائع کے ساتھ ساتھ ایل او سی کے قریب رہنے والے عام لوگوں کا ماننا ہے کہ جمعہ کے روز ہونے والی گولہ باری حالیہ دنوں میں سب سے ہلاکت خیز اور بدترین تھی۔پھر یہ واقعہ ان حالات میں پیش آیا ہے کہ جب لداخ خطہ میں چینی افواج کے ساتھ پہلے ہی حالات کشیدہ ہیں ۔حالانکہ چینی افواج کو علاقہ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کیلئے مذاکرات جاری بتائے جارہے ہیں تاہم اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی پیش رفتہ نہیں دیکھی جاسکی ہے۔
چینی دراندازی کا تذکرہ کرتے ہوئے محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ اگر مرکزی سرکار چین کے ساتھ بات کرسکتی ہے تو پھر اسے پاکستان کے ساتھ بات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے۔انکا کہنا ہے ’’اگر آپ چین کے ساتھ بات کرسکتے ہیں تو پاکستان کے ساتھ بات کیوں نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔
شمالی کشمیر میں بھی لوگوں کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرکے ایل او سی کے قریب رہنے والے لوگوں کی زندگی کو جہنم بننے سے بچانا چاہیئے۔ ایل او سی کے نزدیکی اوڑی قصبہ کے ایک نوجوان انجینئر نے بتایا ’’میری کل گھر بات ہوئی تو ایسا لگا کہ جیسے وہاں قیامت آگئی ہو،لوگ انتہائی خوفزدہ تھے اور انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انکے گھر والوں نے انہیں فون پر گولہ باری کی آواز سنائی اور بتایا کہ وہ گھر چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی جانب بھاگ رہے ہیں۔
سرینگر کے سب سے بڑے زچگی اسپتال (للہ دید اسپتال)میں داخل اوڑی کی ایک مریضہ شاہ مالی خاتون کے رشتہ داروں نے گذشتہ روز کی صورتحال کے بارے میں بتایا’’حالانکہ ہم نے دونوں ممالک کے بیچ کئی بار گولہ باری ہوتے دیکھی ہے لیکن گذشتہ روز تو قیامت کا سماں تھا،پاکستان کی جانب سے شدید فائرنگ کی جارہی تھی اور پھر جب یہاں کی فوج نے بھی فائرنگ شروع کی تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے باضابطہ جنگ چھڑ گئی ہو،ہمارا دل ہی نہیں کرتا ہے کہ اپنے گھروں کو جائیں۔سرکار کو چاہیئے کہ ایک ہی بار مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کرکے ہماری طرح سرحدی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو روز روز کے عذاب سے نجات دلائے‘‘۔
ہندوپاک کی قیادت واجپائی اور مشرف کے وعد و قرار پر لوٹ آئے تو انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں :محبوبہ مفتی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS