یہ خبر خوش آئند ہے کہ مالدیپ کے وزیر خارجہ موسیٰ ضمیر ہندوستان کے دورے پرآئے اور ہندوستان نے مالدیپ کو 5 کروڑ ڈالر کی مدد کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے یہ فیصلہ موسیٰ ضمیر کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر سے مدد جاری رکھنے کی گزارش کے بعد لیا گیا۔ مالدیپ کے وزیرخارجہ کی مدد جاری رکھنے کی گزارش اورہندوستان کا اس پر مثبت ردعمل دونوں ممالک کے تعلقات میں خوشگوارتبدیلی کا اشارہ ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ تبدیلی برقرار رہے گی، اسے چین کی نظر نہیں لگے گی۔ ویسے معزو حکومت اب تک چین سے زیادہ قربت کا اظہار کرتی رہی ہے، اس قربت کی وجہ سے اس نے ہندوستان سے اپنے ملک کے تاریخی تعلقات کو نظراندازکر دیا جبکہ ہندوستان نے ہمیشہ سے پڑوسیوں کو اہمیت دی ہے، دیگر ملکوں سے بھی اس نے خواہ مخواہ رشتہ بگاڑنے میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔ بقائے باہم کی اس کی پالیسی دنیا کے لیے اطمینان بخش رہی ہے۔ چین کی ترقی دنیا کو ڈراتی ہے، کیونکہ وہ ایک توسیع پسند ملک ہے مگر ہندوستان کی ترقی یہ امید بندھاتی ہے کہ اس کا فائدہ دیگر ملکوں کو بھی ملے گا۔ پاکستان نے شروع سے ہندوستان سے دشمنانہ پالیسی رکھی، چین کی نظر ہمیشہ ہندوستان کے علاقوں پر رہی مگر بقیہ تمام ملکوں کے ہندوستان سے بہتر تعلقات رہے ہیں۔ کسی ملک میں کسی لیڈر کے ذاتی حصولیابیوں کو زیادہ توجہ دے دینے، چین کے ساتھ زیادہ پینگیں بڑھانے، ہندوستان کی اہمیت کو نظرانداز کر دینے کی وجہ سے وقتی طور پر کبھی ایسا محسوس ہوا کہ اس ملک کے مستقبل قریب میں ہندوستان سے تعلقات نہیں رہیں گے مگر حالات بدل گئے، تعلقات استوار ہوگئے۔ بنگلہ دیش کے معاملے میں یہی ہوا، ایسا ہی نیپال اور سری لنکا اور پھرافغانستان کے معاملے میں ہوا۔ بدلتے حالات نے خود ان ملکوں کے لیے ہندوستان کی اہمیت ثابت کر دی۔ ایسا لگتا ہے کہ مالدیپ کے صدر معزو کو بھی اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہند مخالف نعرے دے کر چین کی قربت حاصل کر سکتے ہیں، اس قربت کی وجہ سے ان کے لیے سیاسی کامیابی کچھ آسان ہوسکتی ہے مگر اس طرح مالدیپ کو چلا نہیں سکتے، مستقل سیاسی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، کیونکہ ہندوستان اور مالدیپ کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے، مالدیپ میں جمہوریت بحال رکھنے میں ہندوستان نے اہم رول ادا کیا ہے۔ وہاں جمہوریت 1988 میں ہی ختم ہوگئی ہوتی اگر بروقت ہندوستانی فوج نے مالدیپ میں فوجی بغاوت کو ناکام نہیں بنایا ہوتا اور مامون عبدالقیوم کی کرسیٔ صدارت کی حفاظت نہ کی ہوتی۔ مالدیپ کو اقتصادی طور پر مستحکم رکھنے میں بھی ہندوستان نے اہم رول ادا کیا ہے۔ سب سے زیادہ ہندوستان کے ہی سیاح مالدیپ جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق، 2022 میں 2,41,000 اور 2023 میں 13 دسمبر تک 1,93,693 ہندوستانی سیاح مالدیپ گئے تھے مگر اپنے پیش رو ابراہیم محمد صالح کی ’پہلے ہندوستان‘والی پالیسی کے برعکس صدارتی مہم کے دوران معزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ کی مہم چھیڑی تو اس وقت ایسا لگتا تھا کہ ان کی یہ پالیسی انتخابی مہم تک ہی رہے گی،انتخابی کامیابی کے بعد وہ ہندوستان سے دوری نہیں اختیار کریں گے، کیونکہ یہ قرض میں ڈوبے ہوئے مالدیپ کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا، وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی حالت بھی وہی ہو جو سری لنکا کی ہوئی، چین کی محبت میں جو حالت پاکستان کی ہے، اس سے بھی وہ عبرت لے گا مگر حکومت سازی کے بعد معزو نے پہلا غیر ملکی دورہ ہندوستان کا کرنے کے بجائے ترکیہ کا کیا، پھر 5 روزہ دورے پر چین چلے گئے۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اشارہ دینے لگے کہ ہندوستان سے تعلقات کی ان کے لیے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مالدیپ کے کچھ لیڈران ہند مخالف جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ یہ صورتحال ان لیڈروں کے لیے ناقابل برداشت تھی جو ہندوستان اور مالدیپ کے تعلقات کی اہمیت سے واقف ہیں، یہ جانتے ہیں کہ چین کے لیے ہندوستان کو نظرانداز کر دینا مالدیپ کے حق میں نہیں ہوگا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ معزو حکومت کو چین کی گرتی اقتصادیات اور دنیا کے بدلتے حالات کا اندازہ ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ اپنی بھول سدھارنا چاہتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہندوستان نے اب تک فراخ دلی کا ثبوت دیا ہے، حکومت ہند نے اپنے عملی اقدامات سے پھر ایک باریہ اشارہ دے دیا ہے کہ کیوں دنیا بھر کے ممالک کے لیے ہندوستان ایک خاص ملک ہے، وہ کیوں اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس سے رشتہ بناکررکھنا چاہتے ہیں۔
[email protected]