ہند- کناڈا تعلقات!

0

ہندوستان اور کناڈا کا سیاسی وسماجی رشتہ بہت پرانا اور بہت مستحکم رہا ہے۔ اس استحکام اور گہرائی کو سمجھنے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہوگی کہ برصغیر میں کرکٹ کا کھیل بہت مشہو ر و مقبول ہے۔ ان میں ہندوستان پاکستان کے درمیان مقابلوں کو جو غیر معمولی مقبولیت وشہرت حاصل رہی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جب دونوں پڑوسی ممالک کے سیاسی رابطہ ہموار نہیں رہے اور اس کا اثر سیاست و سماج سے آگے بڑھ کر کھیل پر پڑنے لگا تو دونوں ممالک کے کھیل شائقین کو سخت دھچکا لگا، اسی درمیان عرب امارات کے شارجہ میں دونوں ممالک کے درمیان میچ ہونے لگے، اسے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیاکہ شارجہ میں بھی دونوں ممالک کے کرکٹ مقابلہ پر گہن لگنے لگا تب کناڈا ہی وہ ملک تھا، جہاں ہند-پاک کی کرکٹ ٹیموںکے مقابلے منعقد ہوئے، اس ’سہارا ٹورنٹو کپ ‘ کو بھی غیرمعمولی شہر ت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے وہاں بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور کناڈا میںمقیم ہندوستانیوں ہی نہیںبلکہ دیگر اقوام نے بھی کھلاڑیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ اس سے قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے کناڈا سے رشتے کس قدر مضبوط اور استوار رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جی-20 سربراہ اجلاس میں کناڈا کے وزیراعظم کی شرکت ہوئی لیکن چندروز میں ایسا کیا ہوگیا کہ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات یک دم خراب ہوگئے۔ اس پر دونوں ممالک کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ خاص طورپر حکومت ہند کو کئی معنوں میں زیادہ گہرائی و گیرائی سے غور و فکر کرنا چاہیے۔ میڈیا رپورٹوں میں جس طرح سے کناڈا حکومت کے وہاںمقیم ہندوستانی سکھوں کے دباؤمیں آنے کی وجہ سے اٹھایاگیا قدم بتایاجارہا ہے، قابل توجہ اور باعث فکر ہے۔رپورٹ کے مطابق کناڈا میں رہنے والے ہندنژاد عوام میں ایک بڑی تعداد سکھوںکی ہے۔ یہ آبادی 7لاکھ70ہزار ہے۔ لیکن ان سکھوںکا سیاسی طورپر اتنا اثر ہے کہ وہاں کی مقامی حکومت کو باہر سے آکر وہاں بسے اور وہاںکی شہریت حاصل کرنے والے لوگوں کے ووٹوں کی قیمت اور ان کی منشا کے آگے ہندوستان جیسے بڑے ملک سے اپنے رشتہ توڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جب کہ کناڈا خود بھی ہندوستان کے ساتھ جی-20 کا ممبر ہے اور بین الاقوامی سطح پر دونوںممالک ایک پلیٹ فارم پر مشترکہ معاملات میں ایک دوسرے کی معاونت کا حلف لیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایک مقامی دباؤ میں کناڈا کو اگر ایک بین الاقوامی سطح پر دوست ملک سے روابط توڑنا پڑیں تو یقینی طورپر اس کی مجبوری بہت زیادہ ہوگی، اس پر دباؤ بہت زیادہ ہوگا۔ ہندوستان نے بھی فوری طور پر کناڈا کے سفارتکاروں کو ہندوستان چھوڑنے کا انتباہ دے کر اپنے موقف کو واضح کردیا ہے کہ کناڈا کسی کے دباؤ میں آسکتا ہے لیکن ہندوستان کے سامنے ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ وہ ایسے کسی بھی قدم اورمنشاکو برداشت نہیں کرسکتاجو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہو۔ ہندوستان کے اس موقف سے دنیا کے ان ممالک کومعلوم ہوگیا ہے کہ ہندوستان کسی بھی ’کس و ناکس ‘کے آگے جھکنے والا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کو اندرونی سطح پر ان تمام عناصر کی تلاش پرخصوصی توجہ دینا چاہیے، بین الاقوامی سطح پر کون کون کناڈا میںمقیم سکھوں کی پشت پناہی کررہے ہیں، ان کی کسی نہ کسی طرح سے معاونت کررہے ہیں۔ کیوںکہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے، اس کے طول و عرض میںمختلف قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ سکونت پذیر ہیں۔ وقتاًفوقتاً وہ اپنے مسائل کے لیے احتجاج کرتی رہی ہیں۔ ان سے نظم و نسق کو خطرہ لاحق ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کو خارجی اور داخلی دونوں طورپر انتشاری کیفیات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہوگا۔ لوک سبھا کے عام انتخابات نیز پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات جلد ہی ہونے والے ہیں اور سیاسی سازش، اقتدار کی لالچ میں ملک اور یہاں کے عوام کو نقصان پہنچانے والوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS