ہند- بنگلہ دیش دو سیکولر حکومتوں کی طویل مدتی دوستی: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہندوستان اور بنگلہ دیش دو سیکولر حکومتوں کی طویل مدتی دوستی صرف diplomacy Disaster یعنی ہنگامی حالات میں تعاون تک ہی محدود نہ تھی اورنہ ہی محض مطلب براری، موقع شناسی اور جوڑ توڑ پر مبنی تھی بلکہ وہ مثبت وصحت مند سفارت کاری کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تیار کی گئی خارجہ پالیسی کا حصہ تھی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے چہارطرفہ تعلقات کو فروغ ملا، تجارت بڑھی، عوام میں روابط پیدا ہوئے، سرحدی تنازعات بحسن و خوبی پرامن طریقے سے حل کیے گئے اور اس طرح دونوں ممالک کے مابین پائیدار دوستی کی بنیاد پڑی جو حالیہ دنوں تک قائم رہی ۔ بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال اور اتھل پتھل سے مستقبل کے بارے میں ابھی کوئی نتیجہ اخذ کرنا محض قیاس آرائی ہوگی اور وہ بھی قبل از وقت ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اصحاب فہم و ادراک کا، یہاں تک کہ فوج کے اشاروں پر چلنے والی حکومت تک کا بھی اقتدار میں آنے کے بعد رویہ ان کے حزب اختلاف میں اختیار کردہ رویے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔اب ان کے لیے اپنی ذاتی ترجیحات کے مقابلے میں ملک کا مفاد مقدم ہوتا ہے۔ کسی نوبل پرائز ونر(متوقع حکمراں یا صلاح کار جیسی بھی صورت ہو) سے، خواہ وہ فکری طور پر اس کا جھکاؤ ہندوستان کی جانب کم رہا ہو، کسی غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا بشرطیکہ انہیں فوج نے آزادانہ فیصلے لینے کا موقع دیا ہو ۔
کسی ملک کے عوام کیسی حکومت چاہتے ہیں اور کس رہنما کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور کس کو کم یہ ان کی اپنی پسند ہے حالانکہ مسلمہ سیاسی اصولوں کے مطابق جو بھی حکومت قائم ہو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام لوگوں کو بشمول اقلیتی طبقات سماجی، سیاسی اور معاشی انصا ف دلائے اور ان کے ساتھ کسی بھی بنیاد پر کسی بھی شعبۂ حیات میں کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہیے ۔
اب رہی بات بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا برتاؤ، جانی نقصان اور ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کی تو یہ یقینی طور پر باعث مذمت ہے۔البتہ اب اخبارات میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت حکومت کا نام نہاد کنٹرول ہے یا آ نا متوقع ہے اور جن میں طلبا کی تنظیمیںبھی شامل ہیں، ان کی جانب سے بھی یہ اپیل کی جا رہی ہے کہ لوگ اس طرح کی حرکتوں سے باز آئیں اور ان کے اراکین نے مندروں، گرجا گھروں اوراقلیتی محلوں کی حفاظت کا کام خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ دیگر ممالک میں بشمول امریکہ،یوروپ اور یہاں تک کہ ہمارے ملک میں بھی گاہے بہ گاہے ایسی حرکتیں کی جاتی رہی ہیں جب کہ کسی بھی ملک کا قانون اس طرح کی حرکتوں کی اجازت نہیں دیتا لیکن ہر ملک میں چند متعصب لوگوں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی انہیں کسی کے مذہبی جذبات بھڑکانے کا موقع ملتا ہے، وہ اس سے اپنی متعصبانہ خواہش دلخواہ کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی اس معاملے میں اچھوتا نہیں ۔
بنگلہ دیش میں کسی حد تک، گرچہ معمولی ہی سہی، اقلیت و ہند مخالف ذہنیت کا تواسی وقت اشارہ مل گیا تھا جب 1977 میں وہاں کی اس حکومت نے، مارشل لا نافذ کیا تھا، آئین میں سے لفظ سیکولرازم نکال دیا تھا۔ یہ بات دوسری ہے کہ بعد میںسپریم کورٹ نے حکومت کی اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے لفظ سیکولرازم کو آئین میں دوبارہ شامل کرنے کا حکم صادر کردیا تھا۔ظاہر بات ہے کہ اس ملک کی عدالت عظمیٰ کو اس وقت یہ احساس ہوا ہوگا کہ اگر اس اصطلاح کو آئین میں شامل نہیں کیا جاتا ہے تو لوگ کہیں اس کا یہ مطلب نہ نکال لیں کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ کیسا بھی برتاؤ کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی کسی مہذب معاشرے میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو، ایسی حرکات کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔بے لگام آزادی تو صرف جنگل راج میں ہی دی جاسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں بھی جب آئین(42ویں ترمیم) ایکٹ،1976، کی رو سے لفظ سیکولرازم آئین کی تمہید میں شامل کیا گیا تھاتو اس سے متعلق بل کے اغراض واسباب کے بیان میں بھی اس دور کی حکومت نے اپنی فکر وپالیسی کے مطابق صاف طور پر یہ بات شامل کی تھی کہ چونکہ کچھ عوامل اور مفاد پرست لوگ اپنے ذاتی اغراض کی خاطر عام فلاحی اقدامات کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور یہ کہ آئین کو زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بتدریج آگے بڑھتا رہے اور اگرآئین کے اس تدریجی سفر میں رکاوٹ آتی ہے تو یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں آئین کمزور نہ پڑ جائے۔
جب آئین کمزور پڑجاتا ہے اور ارباب حکومت کی گرفت مضبوط نہیں رہتی اور وہ کبھی کبھی ایسے فیصلے نہیں لے پاتے جو انہیں بروقت ایسے معاملات کی بابت لینے چاہیے، جن کا تعلق عوام اور وہ بھی خاص کر نوجوانوںسے ہو توملک میں انتشاری صورت حال کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بنگلہ دیش میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات ہیں۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ کمزور اور مجبور انسان جن میں اقلیتیں بھی شامل ہیں،ہر دور میں ظلم وستم، ناانصافی، جبروتشدد اور استحصال واستبداد کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک مہذب ممالک کی صف تک میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔
گاندھی جی نے کہا تھا، ’’کسی ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتا ہے۔‘‘ گاندھی جی کا یہ قول ،جسے ایک مفروضے کا درجہ حاصل ہے، سبھی ممالک اور مہذب اقوام کے لیے چشم کشا اور قابل تقلید ہے۔
اب رہی بات اقلیتوں کو مالی یا جانی نقصان پہنچانے کی یا ان کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کی یاان کے شخصی و سیاسی وجود کو ختم کرنے یا نسل کشی کی تو آج کی مہذب دنیا میں ایسا سوچنا بھی بعید از قیاس ہے چونکہ جہاں اکثریت ہوگی، وہاں اقلیت بھی ہوگی۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ انسانی حقوق کے نقطۂ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ مگر پھر بھی یہ بات بار بار دیکھنے میں آتی ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں آئینی وقانونی تحفظ کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ بہت سی ایسی زیادتیاں کی جاتی ہیں جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بہت سے معمولی تنازعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر ہم اس وقت بنگلہ دیش کی ہی بات کریں تواس کا شمار بھی اس قسم کی خلاف ورزی میں ہی آئے گا۔ لیکن جب انسانیت سے بدزن انسان (معدودے چند ہی سہی) اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں کا کلچر، زبان، ثقافت وروایات تقریباً یکساں ہوں ،اقلیتوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کریں تویہ عالمی حکمرانوں اور عوام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS