بچوں کو کسی بھی قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ قوموں کی ترقی کا دارومدار اس کی نوجوان نسل کی فلاح و بہبود پر ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ہندوستان وہ ملک ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ کم عمر آبادی موجود ہے اور یہ تعداد وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد تقریباً 47 کروڑ تھی جو اس وقت کی کل آبادی کا تقریباً 39 فیصد بنتی تھی۔ اگرچہ حالیہ سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن موجودہ آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بچوں کی تعداد اب بھی 40 کروڑ سے زیادہ ہوگی۔
لیکن کیا محض تعداد کا بڑھنا کسی ملک کیلئے فخر کا باعث ہو سکتا ہے جب کہ ان بچوں کو زندگی کے بنیادی حقوق اور ضروریات ہی میسر نہ ہوں؟ آج ہندوستان میں لاکھوں بچے غذائیت کی کمی، ناقص تعلیمی نظام اور بنیادی صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ حکومتیں بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن جب عملی اقدامات کا وقت آتا ہے تو یہ سب زبانی جمع خرچ ثابت ہوتے ہیں۔
حال ہی میں پیش کیے گئے مرکزی بجٹ میں بچوں کیلئے مختص رقم میں محض 5.65 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو دیکھنے میں ایک مثبت اعداد و شمار لگتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کا مطلب کچھ نہیں۔ اس اضافے کو اگر افراط زر کی شرح کے مطابق پرکھا جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ حقیقی معنوں میں یہ اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزید برآں جب اس بجٹ کا مجموعی قومی آمدنی یا جی ڈی پی کے تناسب سے موازنہ کیا جائے تو تصویر اور بھی بھیانک ہو جاتی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں ’بچوں کے بجٹ‘ کا تناسب جی ڈی پی کے 0.34 فیصد کے برابر تھا جو اس سال مزید کم ہو کر 0.33 فیصد رہ گیا ہے۔ یعنی جہاں ضرورت اس بات کی تھی کہ اس بجٹ میں زبردست اضافہ کیا جاتا، وہیں حکومت نے اس میں مزید کمی کر دی۔ یہ رجحان کوئی نیا نہیں بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل بچوں پر حکومتی اخراجات میں کمی کی جا رہی ہے۔
ایک دہائی قبل2012-13میں بچوں کی صحت، تعلیم اور تحفظ پر حکومتی اخراجات مجموعی قومی اخراجات کا 4.76 فیصد تھے جو آج 2.29 فیصد پر آ چکے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف مرکزی حکومت بلکہ کئی ریاستی حکومتیں بھی بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کو نظرانداز کر رہی ہیں۔ مغربی بنگال کی مثال ہی لیجیے، یہاں بچوں کی تعلیم کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے اور ریاستی حکومت کی بے حسی قابل مذمت ہے۔
دوسری جانب حکومت بڑے جوش و خروش سے خواتین کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا چرچا کر رہی ہے۔ بجٹ میں صنف پر مبنی مختص میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے اسے 8.86 فیصد کر دیا گیا ہے جو کہ گزشتہ سال کے 6.8 فیصد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ خواتین کیلئے 4.49 لاکھ کروڑ کا تاریخی بجٹ مختص کیا گیا ہے اور وزارت خواتین و اطفال کی اسکیموں کو بھرپور فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بچوں کے مسائل کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ کسی بھی قوم کی خواتین اسی وقت مضبوط ہو سکتی ہیں جب ان کے بچے صحت مند، تعلیم یافتہ اور محفوظ ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو خواتین کو ترقی کے مواقع دیے جائیں اور دوسری طرف ان کے بچوں کیلئے بنیادی وسائل تک فراہم نہ کیے جائیں؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں بچوں کی بہبود کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ امیر طبقہ اپنے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں میں داخل کروا کر مطمئن ہو جاتا ہے جبکہ غریب اور متوسط طبقے کے بچے حکومت کی بے حسی کا شکار بن جاتے ہیں۔ سول سوسائٹی بھی اس مسئلے پر خاموش ہے جو اس بے حسی کو مزید تقویت دیتی ہے۔ اگر آج بچوں کے حقوق کی پامالی پر آواز نہ اٹھائی گئی تو آنے والے برسوں میں اس کے تباہ کن نتائج بھگتنا ہوں گے۔ بچوں کے ساتھ اس بے حسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ صحت اور تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ایک غیر مستحکم اور کمزور معاشرہ تشکیل دیں گے۔ جس ملک میں بچوں پر خرچ ہونے والا بجٹ مسلسل کم ہو رہا ہو، وہاں کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مستقبل میں ایک ترقی یافتہ قوم کے طور پر ابھرے گا؟ حکومت کو اگر واقعی ملک کے مستقبل کی فکر ہے تو اسے فوری طور پر بچوں کی صحت، تعلیم اور تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر بجٹ مختص کرنا ہوگا۔
یہ وقت خوشنما الفاظ اور اشتہاری مہمات کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ ہندوستان کے بچوں کو صرف خواب دکھانے کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جو ان کے بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر دوسرا بچہ غذائی قلت کا شکار ہو، جہاں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہوں وہاں حکومت کی اولین ترجیح بچوں کے مسائل حل کرنا ہونی چاہیے، نہ کہ ان کے بجٹ میں کٹوتی کرنا۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ قوم کے معماروں کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے سنجیدہ، مستقل اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔