روسی صدر ولادیمیر پوتن دنیا کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس بات سے بھی وہ اچھی طرح واقف ہیں کہ روس کو کن ملکوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، کن ملکوں سے ہرحال میں رشتہ مضبوط رکھنا چاہیے اور بدلتے حالات کی چنوتیوں سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ پوتن سوویت یوین کے بکھراؤ کی وجوہات سے واقف ہیں، وارسا پیکٹ کے تحلیل کیے جانے سے واقف ہیں، اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ناٹو کی توسیع مسلسل کیوں ہوتی رہی ہے اور اس توسیع کا سلسلہ اور کتنا دراز ہوگا۔ اسی لیے وہ ہر موقع کا استعمال کر رہے ہیں۔ قازان میں ہوئے برکس کے سربراہ اجلاس کا استعمال بھی انہوں نے اس طرح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغرب کی طرف سے جو چنوتی دی جا رہی ہے،اس سے نمٹنے کے لیے تیاری کر لی جائے۔ اس بار کے برکس سربراہ اجلاس سے پہلے ہی یہ بات کہی جا رہی تھی کہ روس ڈالر کے تسلط کو ختم کرنا چاہتا ہے اور رقم کی لین دین کے لیے نیا نظام بنانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے، وہ ایسا اس لیے کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پابندیاں کا وہ اثر نہ باقی نہ رہے جو ابھی ہے۔ اس سلسلے میں ’بی بی سی‘کے لیے اسٹیون روزنبرگ نے اپنی رپورٹ میں کنسلٹنسی کمپنی میکرو ایڈوائزری کے شریک بانی کرس ویفر کی یہ بات نقل کی ہے کہ ’روس کی معیشت کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے بہت سے سرحد پار تجارت اور ادائیگیوں سے منسلک ہیں اور ان میں سے زیادہ تر امریکی ڈالر (میں کی جانے والی روایتی ادائیگی) سے منسلک ہیں۔۔۔۔امریکی ٹریژری کا عالمی تجارت پر بہت زیادہ اثر و رسوخ صرف اس وجہ سے ہے کہ امریکی ڈالر دنیا بھر میں ادائیگیوں کے لیے اہم کرنسی ہے۔ روس کی بنیادی دلچسپی امریکی ڈالر کے تسلط کو توڑنا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ برکس ممالک ایک متبادل تجارتی میکانزم بنائیں اور کراس بارڈر سسٹم تیار کریں جس میں ڈالر، یورو یا جی سیون کی کرنسیوں میں سے کوئی بھی شامل نہ ہو تاکہ پابندیوں سے کوئی زیادہ فرق نہ پڑے۔‘لیکن امریکہ کے تسلط کو ختم کرنے کے روس ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے پر ہی کام نہیں کر رہاہے، ان ممالک سے رشتہ قائم کررہا ہے جو امریکہ کے قریب سمجھے جاتے رہے ہیں اور ادھر کے برسوں میں امریکہ نے ان سے کچھ دوری بنالی ہے۔ روس کی کوشش ہے کہ سعودی عرب بھی اس کے ساتھ آ جائے۔ سعودی عرب نے اب تک برکس سے وابستگی اختیار نہیں کی ہے مگر روس نے یہ امید نہیں چھوڑی ہے کہ وہ برکس سے وابستہ ہو جائے گا۔
روس ان ممالک سے بھی تعلقات مستحکم بنا رہا ہے جن کے امریکہ سے بالکل بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں۔ شمالی کوریا کے بارے میں خبر یہ بھی آئی ہے کہ اس نے روس کو ہتھیار سپلائی کیا ہے اور اس کے فوجی یوکرین جنگ لڑنے کے لیے گئے ہیں۔ ادھر یوکرین جنگ میں ایران کے روس کو مدد کرنے کی خبر آئی ہے تو اسرائیل کی جوابی کارروائی کی دھمکی کے بعد خبر یہ بھی آئی ہے کہ روس نے ایران کی مدد کی ہے، اسے میزائل شکن نظام فراہم کرایا ہے۔ برکس کے سربراہ اجلاس میں ایرانی صدر پزشکیان نے شرکت کی ہے ،روس اور ایران نے ’جامع حکمت عملی شراکت داری معاہدے کا اعلان‘ کیا ہے اور جلد ہی دونوں ممالک اس معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔ ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق، برکس کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ولادیمیر پوتن نے مسعود پزشکیان سے ملاقات کی ہے۔ پوتن کے مطابق، ’ہمارے دوستانہ و تعمیری تعلقات بتدریج فروغ پا رہے ہیں۔ تجارت اور معاشی شعبے میں روس-ایران تعاون کے مثبت ترقی کے رجحان کو برقرار رکھنا ہماری اہم ذمہ داری ہے۔‘جبکہ ایرانی صدر پزشکیان کا کہنا تھا کہ ’روس کے ساتھ ہمارے تعلقات حکمت عملی کی سطح پر ہیں اور دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہم رکاوٹوں کو دور کر سکتے اور ان تمام مراحل کو حل کر سکتے ہیں جنہیں امریکہ خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘اس طرح روس اور ایران دونوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ دونوں ایک ساتھ ہیں۔n