اویغوروں کے مسئلہ پر ہندوستان کا موقف

0

ایم اے کنول جعفری

چین کے صوبہ سنکیانگ میں حکومت کے ذریعہ اویغوروں کے اُوپر کئے جانے والے ظلم و ستم اور جبروتشدد کی داستان کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امریکہ،آسٹریلیا اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک اِن انسان سوز مظالم کے خلاف جب تب آواز بلند کر دیگر ملکوں سے اس جانب توجہ دینے اور انسانی حقوق کی پاس داری کے لیے ایک ساتھ مل کرعملی اقدام کی گزارش کرتے رہے ہیں۔چین مغربی ممالک اور عالمی میڈیا کے پاس موجود ثبوت و شواہد کو درکنار کر اپنے اُوپر لگے الزامات کی لگاتار تردید کرتا آرہاہے۔گزشتہ مہینے امریکہ اور اتحادیوں نے چین کو نشانہ بنانے والے فیصلے کا پہلا مسودہ اقوام متحدہ کے حقوق کے اعلیٰ ادارے کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس میں سنکیانگ پر بحث کی کوشش کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے حقوق کی سابق سربراہ مشیل بیچلیٹ کی جانب سے سنکیانگ پر طویل عرصے سے تاخیر کا شکار رہی رپورٹ میں اویغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا گیا تھا۔ مغربی ممالک کا خیال تھا کہ صرف نتائج کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کو ایجنڈے میں شامل کرنے سے نہیں روکا جائے گا ۔ اس بابت چھ اکتوبر2022کو جنیوا میںمغربی ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل(یو این ایچ آر سی) میں انسانی حقوق پر بحث کے لیے قرارداد کا مسودہ پیش کیا گیا۔اُمید تھی کہ چینی حکومت کے ذریعہ انسانوں پر کی جا رہی زیادتیوںکے خلاف تمام ممالک کندھے سے کندھا ملا کر ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔بحث سے چین پر اخلاقی دباؤ پڑے گا اور وہ اویغوروں کے خلاف اپنا جارحانہ رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے گا،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک بار پھرمسلمانوں کے خلاف سخت موقف رکھنے والی عالمی طاقتیں اپنا پرچم بلند کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش بے حد اہم قرارداد پر بحث کے لیے ہوئی ووٹنگ میں انسانیت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ بھی تب جب سنکیانگ کے اویغوراقلیتوں پر چینی مظالم کو لے کر بحث کے لیے پیش کی گئی قرارداد کے مسودے کا مضمون سادہ،سلیس اور شائستہ تھا۔ اس میں چین کے غیر انسانی رویے اور جبروتشدد کے خلاف تفتیش کے لیے کمیٹی تشکیل کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔47 اراکین پر مشتمل کونسل میں صرف17ممالک نے قرارداد کے مسودے سے اتفاق کرتے ہوئے اویغوروں کی حمایت میں اپنی رائے کا استعمال کیا، جبکہ 19 دیشوں نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ ان کے علاوہ ہندوستان سمیت11 ایسے ممالک رہے،جنھوں نے انسانیت کو سرخ رو کرنے والی رائے دہی کے حق کے استعمال کو لازمی نہیں سمجھا۔ہندوستان کے ذریعہ اپنی رائے دہی کا استعمال نہیں کرنے پر ملک میں سیاسی بازار گرم ہو گیا۔ کانگریس، شیو سینا اوراے آئی ایم آئی ایم کے پارلیمانی اراکین کی جانب سے سوالات کھڑے کئے گئے۔ کانگریس کے رُکن پارلیمنٹ منیش تواری نے ٹوئٹ کر پوچھا کہ آخر چین پر اتنی ہچکچاہٹ کیوں ہے؟جو وہ سنکیانگ میں انسانی حقوق پر بحث کے لیے یو این ایچ آر سی میں لائی گئی قرارداد سے دُور رہا۔ حکومت چین کے ذریعہ کی گئی دراندازی پر پارلیمنٹ میں بحث کے لیے بھی تیار نہیں ہوگی۔ شیو سینا کی رُکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ’ ہندی چینی بھائی بھائی‘ اور’لال آنکھ سے لے کر بند آنکھ تک کا سفر‘۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اویغور مدعے پر یو این ایچ آر سی میں چین کی مدد کرنے سے متعلق فیصلے کا سبب جاننا چاہا۔انھوں نے ٹوئٹ کر معلوم کیا ،’کیا چین کے صدر شی جن پنگ کو ناراض کرنے سے وہ اتنا ڈرتے ہیں کہ بھارت سچ بات نہیں بول سکتا۔‘
ہندوستان کے پاس سنکیانگ میں اویغوروں پر جبرو ستم کے مدعے پر چین کے خلاف ووٹ دے کر اُسے گھیرنے کا سنہرا موقع تھا،لیکن اُس نے اس موقع کوضائع کر دیا۔ وہ یو این ایچ آر سی میں لائی گئی قرارداد پر رائے دہی کے استعمال سے غیر حاضر رہا۔ ہندوستان نے اپنے ووٹ کا استعمال نہ کر ایک طرح سے چین کی مدد ہی کی۔وہی چین جو کشمیر مسئلہ کو لے کر اقوام متحدہ میں پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کرچکا ہے ۔وہی چین جو بار بار پاکستان کے فعال بدنام زمانہ دہشت گردوں کو اقوام متحدہ کے ذریعہ پابندی لگانے سے بچاتا آرہا ہے۔ یو این ایچ آر سی میں پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ کے وقت کئی مغربی ممالک کا رویہ بھلے ہی تنگ نظری، بغض پر مبنی اور غیر انسانی تسلیم کیا جا رہاہو یا پھر ان کی سیاسی مجبوریاں رہی ہوں، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ رہی کہ صومالیہ کے علاوہ کوئی دیگر مسلم ملک مظلوم اویغوروں کی حمایت میں جارح چین کے خلاف اپنا ووٹ ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ انھوں نے یا تو چین کے خلاف ووٹ نہیںدیا یا پھر ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی۔چار مسلم ممالک قطر، انڈونیشیا،متحدہ عرب امارات اور پاکستان کا اویغور مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر بات کرنے سے انکار کرنا ان کے نجی مفاد یا سفارتی سطح کا حصہ ہو سکتا ہے ۔ اسے چین کی سفارتی کامیابی اور مغربی ممالک کی سیاسی اور اخلاقی ناکامی ماناجارہاہے۔ اسی کے ساتھ سنکیانگ کے مسلمانوں کے خلاف چینی تشدد میں اضافے کے امکان مزید بڑھ گئے ہیں۔ چین پر الزام ہے کہ اس نے سنکیانگ کے ثقافتی تبدیلی کے مراکز میں ایک بڑی تعداد کو جبری طور پر محصور کر رکھا ہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی تاریخ میں ایسا دوسری مرتبہ ہوا،جب پیش کی گئی قرارداد کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ بھی تب،جب کافی نرم زبان میں پیش کئے گئے مسودے میں صرف حقوق انسانی کی خلاف ورزی پر بحث کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ قرارداد کے ناکام ہونے کو مغربی ممالک کے لیے شدید پسپائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو برس سے زیادہ کے عرصے میں ایل اے سی(لائن آف ایکچوئل کنٹرول) پر چین کے ساتھ بھارت کا تنازعہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ 4,057کلومیٹر لمبی یہ سرحدی لائن لداخ،کشمیر، اتراکھنڈ،ہماچل پردیش،سکم اور اروناچل پردیش سے ہو کر گزرتی ہے۔ چین نے مبینہ طور پر بھارت کی کافی زمین پرغاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔ اس کے باوجودہندوستان یو این ایچ آرسی ووٹنگ میں اپنے دیرینہ موقف پر قائم رہا۔ اویغور مدعے پر چین کے خلاف رائے دہی سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات مزیدخراب ہونے کا اندیشہ تو تھا ہی،اس سے ملک کا کچھ فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس بابت وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعہ کے روز ہفتہ واری پریس مذاکرات میں میڈیا سے کہا کہ کسی خاص ملک کے خلاف قرارداد میں حصہ نہیں لینا بھارت کے طویل مدتی رویے پر منحصر ہے۔ اس حکمت عملی میں چین کے لیے بھی پیغام چھپا ہے کہ وہ ہندوستان کے اندرونی معاملوں میں دخل نہ دے اور پاکستان کے ذریعہ کشمیر جیسے حساس معاملے پر اقوام متحدہ میں لائی جانے والی کسی بھی قرارداد کے لیے بھارت کی مخالفت کرنے سے اجتناب کرے۔اسی کے ساتھ بھارت نے مغربی ممالک کو بھی یہ پیغام دے دیا کہ انسانی حقوق کے نام پر ان کی سیاست کو طاقت نہیں دی جائے گی۔ ایسا کرنے سے ترقی پزیر ممالک ان کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گے۔ اقوام متحدہ میں چین کے سفیر چن زو نے کہا کہ اقوام متحدہ کا فائدہ اُٹھاکر اس مسئلے پر بات کرنے کا دباؤ ڈالنا چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ہے۔یہ انسانی حقوق کی بجائے سیاسی جوڑتوڑ پر مبنی ہے۔ آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر چین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،کل اسی طرح کوئی دیگر ترقی پزیر ملک نشانے پر ہو گا۔ بھارت کی پالیسی انسانی حقوق خلاف ورزی کے نام پر کسی خاص ملک کو نشانہ بنانے کی مخالفت ملک کے مفاد میں ہے۔ اس پالیسی کے ذریعہ ہندوستان کشمیر کو لے کر پاکستان کی خرافات یا دشمن ملک کی پینترے بازی کو ناکام کر سکتا ہے۔
( مضمون نگار سبکدوش ٹیچر، سینئر صحافی اور ادیب ہیں۔)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS