فلسطینی ریاست پر ہندوستان کا اسٹینڈ واضح : محمدعباس دھالیوال

0

محمدعباس دھالیوال

گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل نے جونا حق قتل و غارت گری کا فلسطینیوں پہ ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایسی مثال شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ میڈیا کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اب غزہ کی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی آبادی ایک تباہ کن انسانی بحران کا شکار ہے، جو اب اس علاقے میں محدود امداد پر انحصار کر رہی ہے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینی اپنے ملک کو الگ ریاست بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور لمبے عرصے سے دنیا کے مختلف ممالک وقتاًفوقتاًفلسطین کے حق میں نعرہ بھی بلند کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں گزشتہ جمعہ کو اقوام متحدہ میں فلسطینی کے حق میں ایک قرارداد کو پاس کیا گیا ۔اس قرارداد کو کل 193 رکن ممالک میں سے 142 ممالک کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کی مخالفت میں صرف 10 ممالک نے ووٹ دیا، جبکہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ نیویارک اعلامیہ کہی جانے والی اس قرارداد کی حمایت کرنے والوں میں بھارت کے ساتھ ساتھ چین، روس، سعودی عرب، قطر، یوکرین، برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔ جبکہ اسرائیل اور امریکہ سمیت کل 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
ادھر خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، نیتن یاہو نے جمعرات کو اسرائیلی بستیوں کے پھیلاؤ سے متعلق ایک متنازع منصوبے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت اس زمین پر بستیوں کی تعمیر کی جائے گی، جس پر فلسطینی اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔یہ قرارداد ایک ایسے وقت پر آئی ہے، جب 22 ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کا ایک اہم اجلاس ہونا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ اس اجلاس میں وہ باقاعدہ طور پر فلسطین کو ریاست کا درجہ دیں گے۔فرانس کے علاوہ، ناروے، اسپین، آئرلینڈ اور برطانیہ بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کی بات کر چکے ہیں۔

جمعہ کو لائی گئی اس قرارداد کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے کہاکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے بنیادی سوال دو ریاستی حل کا نفاذ ہے، جہاں دو خودمختار، آزاد اور جمہوری ریاستیں – اسرائیل اور فلسطین امن اور سلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔اس اعلامیہ کے مطابق دو ریاستی حل کی جانب ’ٹھوس، وقت بند اور ایسا قدم اٹھایا جانا چاہیے جسے بعد میں بدلا نہ جا سکے۔‘اس سے قبل اسی سال جولائی میں فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے فلسطین کے مسئلے پر ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ نیویارک اعلامیہ کی بات وہیں سے شروع ہوئی تھی۔اس قرارداد کو پہلے ہی عرب لیگ منظوری دے چکی ہے اور اقوام متحدہ کے 17 رکن ممالک (جن میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں) نے اس پر پہلے ہی دستخط کر دیے تھے،جبکہ اقوام متحدہ میں اسی سال جون میں اسرائیل-غزہ جنگ بندی سے متعلق ووٹنگ ہوئی تھی، بھارت نے اس سے دوری اختیار کی تھی، جس کے بعد اپوزیشن نے بھارت کی سفارت کاری پر سخت تنقید کی تھی۔ بھارت ان 19 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس ووٹنگ سے دوری اختیار کی تھی۔ ایسے میں جمعہ کو ہوئی ووٹنگ کو بھارت کا ایک بڑا سفارتی قدم کہا جا رہا ہے۔

اس وقت اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے پروتانی ہریش نے کہا تھاکہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر بھارت ہمیشہ سے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے، جس میں ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہو، جو پرامن طریقے سے، محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر اسرائیل کے ساتھ ساتھ رہ سکے۔بھارت کی وزارت خارجہ بھی کئی مواقع پر یہ کہہ چکی ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر بھارت کی حمایت ملک کی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی حصہ ہے۔وزارت خارجہ نے کئی بار کہا ہے کہ بھارت ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے لیے ایک خودمختار، آزاد ریاست فلسطین کے قیام کے لیے براہ راست مذاکرات کی وکالت کرتا رہا ہے۔ ایک ایسی ریاست بنے جس کی اپنی سرحد ہو اور فلسطینی وہاں محفوظ طریقے سے رہ سکیں، جو اسرائیل کے ساتھ بھی امن سے رہے۔اس سے قبل اپوزیشن کے سوال کے جواب میں دسمبر 2024 میں حکومت نے پارلیمنٹ میں بھی اس بات کو واضح کیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر بھارت دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔ ساتھ ہی بھارت یہ مانتا ہے کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت ملنی چاہیے۔ پارلیمنٹ میں اسی طرح کے ایک اور سوال کے جواب میں جولائی میں بھارت حکومت نے ایک بار پھر دو ریاستی حل کی حمایت کی بات کہی تھی۔ اس سے پہلے اپریل 2023 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک قرارداد لائی گئی تھی جس میں اسرائیل کو 1967 کے بعد سے قبضے والے علاقوں کو چھوڑنے کے ساتھ ساتھ نئی بستیوں کے قیام اور موجودہ بستیوں کی توسیع کو فوری طور پر روکنے کے لیے کہا گیا تھا۔

یہاں قابل ذکر ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر بھارت کی حمایت کئی دہائیوں پرانی ہے۔ 1974 میں بھارت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینی عوام کا واحد اور جائز نمائندہ تسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک بنا تھا۔ 1988 میں بھارت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل ہو گیا تھا۔ 1996 میں بھارت نے غزہ میں اپنا نمائندہ دفتر کھولا، جسے بعد میں 2003 میں رام اللہ منتقل کر دیا گیا،جبکہ اس سے قبل بھی بہت سے کثیر الفریقی فورمز پر بھارت نے فلسطینی مسئلے کی حمایت میں فعال کردار ادا کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 53ویں اجلاس کے دوران بھارت نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے مسودہ قرارداد کی نہ صرف معاونت کی بلکہ اس کے حق میں ووٹ بھی دیا۔بھارت نے اکتوبر 2003 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کی بھی حمایت کی تھی، جس میں اسرائیل کی طرف سے دیوار کی تعمیر کے فیصلے کی مخالفت کی گئی تھی۔ 2011 میں بھارت نے فلسطین کو یونیسکو کی مکمل رکنیت دلانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔2012 میں بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کو بھی معاونت دی تھی، جس میں فلسطین کو ’غیر رکن مبصر ریاست‘ (non-member observer state) کا درجہ دینے کی بات تھی۔ ستمبر 2015 میں بھارت نے اقوام متحدہ کے احاطے میں فلسطینی پرچم نصب کرنے کی بھی حمایت کی تھی۔

abbasdhaliwal72@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS