تقریباً 5برسوں کے وقفہ کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم روس کے دوروزہ دورے پر گئے اور وہاں سے کامیاب ہوکر لوٹے ہیں۔ روس نے ہندوستان کو اپنے مزید دو شہروں میں قونصل خانے کھولنے کی اجازت دی ہے اور ساتھ ہی صدر روس ولادیمیر پوتن نے روسی سپاہ میںہندوستانیوں کو جبری بھرتی کرنے اورا نہیں روس- یوکرین جنگ کا ایندھن بنائے جانے سے متعلق تحفظات کا ازالہ کردیا ہے۔
وزیر اعظم ہند کا یہ دورہ کئی لحاظ سے اہم ہے۔اس دورے سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں بلکہ عالمی سیاست کو یہ پیغام بھی گیا ہے کہ اب ایک قطبی نظام کے محور پر گردش کرنے کے بجائے دنیا مساوات کی بنیاد پر کثیرقطبی عالمی سیاست کے ذریعہ چلائی جائے گی۔ کووڈ وبا اور روس- یوکرین جنگ کے اتار چڑھائو کے درمیان ہند- روس تعلقات میں یہ گرم جوشی اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی کو وہی خد و خال دینے کی کوشش میں ہے جو آزادی کے فوراً بعد ہندوستان کے معماروں نے طے کیاتھا۔یعنی ناوابستگی اورپنچ شیل کے اصول(دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا باہمی احترام،باہمی عدم جارحیت،باہمی عدم مداخلت، مساوات و باہمی فائدے اور پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر ایسی خارجہ پالیسی جو فعال اور لچکدارہونے کے ساتھ ابھرتے ہوئے حالات سے نمٹنے کیلئے بھی تیار ہو)پرعمل درآمد۔
اپنے دورے کے آخری دن وزیراعظم نے ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب میں کہا کہ روس کا لفظ سنتے ہی ہر ہندوستانی کے ذہن میںجو پہلا تاثر آتا ہے کہ وہ خوشی اور غم میں ہندوستان کا ساتھی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی کے بعد سے اب تک دنیا کے تمام ممالک میں روس ہی واحد ملک ہے جو ہر مرحلے پر ہندوستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان نے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی اقتصادی، تزویراتی یا تکنیکی تعاون کے معاہدے بھی کیے لیکن روس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں کبھی سردمہری نہیں آئی۔یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس اور ہندوستان کے تعلقات بھی زیربحث رہے کیونکہ مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں لیکن تنقید کے باوجود ہندوستان نے روس سے تیل خریدنا جاری رکھا۔
یہ ناوابستگی اور پنچ شیل جیسے زرّیں اصول کاہی فیضان تھا کہ ہندوستان کے وزیراعظم کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہواجب ناٹو اپنا 75 واں سربراہ اجلاس کررہا ہے اور دنیا کو پھرسے ’سفید ریچھ‘ کے خلاف لام بند کرنے پر اکسارہاہے لیکن ہندوستان نے اس کا کوئی اثر لیے بغیر ’شہنشاہ عالم پناہ ‘امریکہ کی اس توقع کی بھی نفی کردی کہ امریکہ، ہندوستان یا کسی دوسرے ملک سے توقع کرتا ہے کہ وہ روس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ واضح کرے گا کہ ماسکو اقوام متحدہ کے چارٹر اور یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ نیز یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ہفوات کو بھی قابل اعتنا نہیں جانا کیوں کہ ہندوستان یہ اچھی طرح سمجھ رہا ہے کہ یوکرین اپنی سرزمین پر روس کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑرہاہے اور یوکرین، امریکہ سمیت تمام ناٹو ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان بھی اس کا حصہ بن جائے یا پھر اسے جائز قرار دے۔ہندوستان کے وزیراعظم، امریکہ کی اس دورخی پالیسی کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ وہی امریکہ ہے جو ایک جانب یوکرین پر روسی حملہ کی مذمت کررہا ہے تودوسری جانب فلسطین میں نسل کشی کیلئے اسرائیل کو اربوں کھربوں کی مالی مدد اور ا سلحہ فراہم کررہا ہے۔یوکرین میں انسانی زندگی کو قیمتی سمجھنے والا امریکہ انسانیت کے خلاف سنگین جنگی جرائم کے مرتکب ہونے والے اسرائیل کی بے حیاقیادت کوفلسطینیوں پر آگ و بارو د برسانے اور بستیوں کوراکھ کرنے کے وسائل مہیا کررہاہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے چوٹی کانفرنس میں ہندوستان کی جانب سے عالمی امن کی پرزوروکالت کی۔ہندوستان نے روس کو یہ مشورہ دیاکہ وہ کسی بھی قسم کے تشدد اور جنگ کے خلاف ہے۔ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول پنچ شیل پر عمل کرتے ہوئے صدر پوتن کے ساتھ چوٹی کانفرنس میں بھی شریک ہندوستان کے وزیراعظم نے کہا کہ ایک دوست کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ امن کا راستہ میدان جنگ سے نہیں نکلتا۔ بموں، بندوقوں اور گولیوں کے درمیان امن ممکن نہیں ہوتا ہے۔ حل کیلئے بات چیت ضروری ہے۔
روس میں ہندوستان کے وزیراعظم کا بیان اس امر کا کھلا اظہار بھی ہے کہ اب ہندوستان، شہنشاہ عالم پناہ کی ہدایت یا دبائوپر نہ تو عمل کرے گا اور نہ ہی اب دنیا ایک قطبی نظام کے محور پر گردش کو طول دینے والی ہے۔ اسی سال دنیا بھر کے 64ممالک میں ہونے والے انتخاب کے نتائج بھی اس کی تائید کررہے ہیں کہ عالمی مساوات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔
[email protected]