محمد حنیف خان
ایران پر اسرائیل کی جارحانہ اور انسانیت سوز بمباری میں اہل غزہ کی چیخیں دب گئی ہیں، وہ درد سے کراہ رہے ہیں مگر ان کی آہ و بکا صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے حالانکہ ایران پر اس حملے سے قبل بھی ایسا ہی تھا مگر اس میں ذرا سا فرق یہ تھا کہ اس کراہ کی آواز سن کر گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی ان کے لیے بول دیتا تھا مگر اب یہ بھی ختم ہوگیا ہے کیونکہ اب سب کے کان اور نگاہیں ایران کی طرف لگ گئی ہیں، بنیامن نیتن یاہو کے سر سے اب فلسطین کے حوالے سے دنیا کا دباؤ بھی ختم ہوگیا ہے، جی-7کی میٹنگ میں بھی اگر بات ہوئی اور کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تو وہ ایران و اسرائیل سے متعلق تھا جس میں ہمیشہ کی طرح اسرائیل کی طرفداری کرتے ہوئے اس کے حق دفاع کا دفاع کیا گیا۔طاقت کے اس عدم توازن نے دنیا کو تین حصوں میں منقسم کردیا ہے، ایک وہ ممالک جو طاقتور ہیں وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور دوسرے وہ ممالک جو صرف ظلم سہتے ہیں یا ان کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور تیسرے وہ ممالک جو زمرہ اول کا دم چھلہ ہیں جن کی اپنی کوئی پالیسی یا شناخت نہیں ہے وہ صرف طاقت کے ساتھ رہتے ہیں۔
فلسطین کے جو حالات ہیں، اب شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے، اس قدر ناگفتہ بہ حالات میں امدادی اشیا کے لیے جمع بھیڑ پر اسرائیلی گولہ باری اور فلسطینیوں کا قتل یہ بتاتا ہے کہ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو توسیع پسندانہ عزائم کے تحت کچھ بھی کرسکتی ہے۔مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات کے لیے اسرائیل کے سوا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں ہے، اس کے پس پشت امریکہ، برطانیہ اور یوروپی ممالک ہیں جہاں کے عوام بھی ان کے اس انسانیت سوز عمل سے نالاں ہیں مگر جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے علاوہ ہندوستان جیسا اہنساوادی ملک بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے حالانکہ دنیا میں ہندوستان کی شناخت امن و شانتی اور اہنساوادی کی ہے۔انصاف پسندی اور حق گوئی و بے باکی اساطیری دور سے ہندوستانی حکومت کی پہچان ہے، اسی لیے ’’رام راجیہ‘‘ کی بات کی جاتی رہی ہے اور اسے ایک ماڈل کی طرح پیش کیا جاتا رہاہے۔ اگر کوئی ملک عملی سطح پر اپنی اصل شناخت سے ہی منھ موڑ لے تو یہ اس ملک اور اس کے شہریوں کے لیے صرف تکلیف دہ بات ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سب اپنی جڑوں سے کٹتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ہندوستان گزشتہ ایک دہائی سے داخلی اور خارجی دونوں سطح پر اپنے قدیمی اور اساطیری اصول سے دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے فلسطین میں بلا شرط جنگ بندی اور اسرائیلی مغویوں کی رہائی کا ریزولیوشن پیش کیا تھا جس کی حمایت میں149ممالک نے ووٹنگ کی جبکہ12ممالک نے اس کی مخالفت میں اور19ممالک ووٹنگ سے غائب رہے جس کا مطلب اس ریزولیوشن کی مخالفت ہی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ گوتم بدھ اور گاندھی کا یہ ملک اسی تیسرے زمرے میں شامل رہا اور اس نے خاموش رہ کر اسرائیل کی حمایت کی ہے،جس کی مخالفت ہندوستان کی حزب اختلاف کانگریس نے کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف بزدلانہ موقف قرار دیاہے اور سوال کیا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ہندوستان اپنے پرانے موقف سے ہٹ گیا، اس نے بی جے پی کے ہی لیڈر اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے موقف سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین کے بجائے اسرائیل کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔اٹل بہاری واجپئی کی اس حوالے سے تقریر آن ریکارڈ موجود ہے جس میں وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ دنیا نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور وقت آنے پر ہم نے بھی تسلیم کیا لیکن اسرائیل کو عربوں کی زمین چھوڑنا پڑے گی اور دوریاستی فارمولے پر عمل کرنا پڑے گا۔ ہندوستان فلسطینیوں کی خود مختاری کی حمایت کرتے ہوئے اس کاز کے لیے کام کرے گا لیکن موجودہ حکومت نے اس کے برخلاف فلسطین کے بجائے اسرائیل کی حمایت کا فیصلہ کیا حالانکہ اس میں بھی اس نے سیاسی بازی گری کا مظاہرہ کیا لیکن یہ سیاسی بازی گری ایسی ہے جو نہ ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ کے آغاز سے ہی غیر سرکاری سطح پر حکومت ہند کی اسرائیل کو حمایت حاصل ہے، خود وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل کے ساتھ جب اظہار یکجہتی کیا تو ہر طرف چہ می گوئیاں شروع ہوگئی تھیں جس کے بعد سرکاری سطح پر جاری بیان میں دو ریاستی حل کے موقف کا اعادہ کیا گیا مگر اس کی حیثیت بربنائے زبان بندی کے سوا کچھ نہیں تھی کیونکہ ہندوستانی میڈیا واضح طور پر اسرائیلی موقف کے ساتھ آج بھی کھڑا ہے، اس نے فلسطینیوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اسرائیل کے ساتھ دوستی اور اس کی حمایت میں میڈیا نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے، اگر کسی نے اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت کی تو اسے گرفتار کرلیا گیا، عوامی سطح پر ایسی فضا بنادی گئی کہ فلسطین کے حامیوں کو سوشل میڈیا پر نہ صرف ٹرول کیا گیا بلکہ ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگائے گئے جبکہ وہ خود اسرائیل کی حمایت میں آسمان سے تارے توڑتے رہے۔
اقوام متحدہ کے ریزولیوشن پر ووٹنگ سے غائب رہنے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ فلسطین کے حوالے سے ہندوستان کے موقف میں تبدیلی کیوں آئی ہے؟ کیونکہ سرکاری اور دستاویزی سطح پر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہندوستان نے اسرائیلی ظلم کی حمایت کی ہے۔حالانکہ اس کی ابتدا تو بہت پہلے سے ہوچکی تھی، صہیونیت اور ہندوتو کا گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں ہے مگر اب تک یہ سب پردے کے پیچھے سے ہوتا رہاہے۔ جس وقت حماس نے حملہ کیا اور غاصبین و قابضین کی ایک معتد بہ تعداد کو اغوا کرلیا تھا، اس وقت وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے اس سے اظہار یکجہتی کیا تھا جس پر ’دی ہندو‘ میں2مارچ2024کو اسٹینلی جانی(Stanly Johny)کا مضمون”Change and continuity in India’s Palestine policy”شائع ہوا تھا، اس میں فاضل مضمون نگار نے اس تبدیلی کی جانب اشارے کیے ہیں اور اس کے اسباب و عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔
ہندوستان نے ایک ایسے وقت میں انسانیت سوز مظالم کی حمایت کی ہے جب ہر طرف سے اس کی مذمت کی جا رہی تھی، خود یہودی ربی، اسرائیلی عوام کی ایک معتد بہ تعداد یہاں تک کہ اسرائیلی فوجی اس کی مخالفت میں آگئے اور کہنے لگے کہ جنگ کا کوئی نتیجہ ہونا چاہیے جہاں تک پہنچنے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہو، ایسے حالات میں جنگ نہیں لڑی جا سکتی جب سب کچھ غیر واضح ہو۔ دی گارجین نے اسرائیلی جارحیت کو اپنے اداریے میں ایسے نظام کا نتیجہ بتایا ہے جو امداد کو جان لیوا بنادیتا ہے۔ اس نے قابض کے طوربہر جنیوا کنونشن کے تحت یہ اسرائیل کی ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ اشیائے خورد و نوش، طب و صحت اور دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل کا پابند ہے، اس کے باوجود اس نے امداد کے حصول کے لیے جمع فلسطینیوں پر گولیاں برسا کر انہیں موت کی نیند سلا دیا۔اہنسا کے اس پجاری ملک کے وزیراعظم اور اس کے پالیسی ساز ہر چیز کو ووٹ کی عینک سے دیکھتے ہیں، وہ اسرائیل کی حمایت اس لیے کرتے ہیں تاکہ یہاں کا ہندو اس حکومت سے خوش ہو اور اس کے حق میں ووٹنگ کرے یعنی حکومت کی نظر میں انسانیت، دنیا کاامن و سکون اب کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی پالیسی داخلہ پالیسی سے جڑی ہوئی ہے جو ہندوستان کی شبیہ کے لیے حد درجہ خطرناک ہے۔