سنجے رائے
وزیراعظم نریندر مودی کا دورۂ روس ختم ہو چکا ہے۔ روس کے قازان شہر میں 22 سے 24 اکتوبر،2024 کو منعقدہ برکس سربراہ اجلاس میں وزیراعظم نے شرکت کی اور سربراہ اجلاس کے موقع پر روس، ایران اور چین کے سربراہان مملکت سے ملاقات کی۔ اس دورے کے شروع ہونے سے پہلے ہی روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھارت اور وزیراعظم مودی کے بارے میں جو بیان دیا تھا، اس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔ پوتن نے کہا کہ بھارت کے وزیراعظم کو یوکرین جنگ پر تشویش رہتی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور مودی کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت دنیا بھر کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بین الاقوامی سطح پر بھارت کا ایک دبدبہ ہے۔ روس کے صدر کا یہ بیان دنیا میں بھارت کے بڑھتے قد کا راست ثبوت ہے۔
آج دنیا کی بڑی طاقتیں براہ راست اور بالواسطہ جنگوں میں الجھی ہوئی ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ24 فروری،2022 کو شروع ہوئی تھی۔ اس وقت روس نے بھی سوچا نہ ہو گا کہ یہ جنگ اتنی طویل کھنچے گی۔ دو سال آٹھ مہینے گزرنے کے بعد بھی اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس جنگ میں امریکہ اور ناٹو میں شامل یوروپی ممالک یوکرین کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ پوتن نہیں چاہتے کہ یوکرین ناٹو کا رکن بنے، کیونکہ وہ اس اتحاد کو اپنے ملک کے خلاف مانتے ہیں۔ پوتن کے حالیہ بیانات سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن یوکرین کے صدر زیلنسکی امریکہ اور ناٹو کی کشش سے نہیں نکل پا رہے ہیں۔
ادھر اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ جاری ہے اور اس کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس وقت لبنان میں حزب اللہ، فلسطین میں حماس اور یمن میں حوثی جیسی آزاد تنظیموں سے لڑ رہا ہے۔ یہ تمام تنظیمیں ایران کی حمایت یافتہ ہیں۔ اب اسرائیل کے نشانے پر ایران بھی آگیا ہے اور حالات کب قابو سے باہر ہو جائیں گے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے ماحول میں دنیا کی نظریں بھارت پر مرکوز ہیں۔ اس کے پیچھے بھارت کی خارجہ پالیسی ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کو کامیابی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ بھارت نے بری طرح سے منقسم سپر پاورس کی جنگ میں اپنے مفادات کو مقدم رکھا ہے۔ بھارت پر امریکہ اور مغربی طاقتوں نے مسلسل دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے مگر وہ ان کے دباؤ میں نہیں آیا۔ اپنی مرضی کے مطابق دنیا بھر میں جمہوریتوں اور دیگر نظاموں کو بنانا اور تباہ کرنا ان سپر پاورس کی فطرت ہے۔ بھارت کی مضبوط قیادت کے سامنے ان کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے، کیونکہ بھارت نے ان کے دوہرے معیار پر کھل کر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کی اس پالیسی کو کئی ممالک نے سراہا ہے۔ اس سے بھارت کا قد بڑھا ہے۔
عالمی وبا کورونا کے دوران بھارت نے امریکہ اور یوروپی ممالک سمیت کئی ممالک کو ویکسین فراہم کرائی۔ اسے چاروں طرف سے سراہا گیا۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بحران کے پیدا ہونے پر بھارت انسانی امداد میں کی فراہمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ لبنان اور فلسطین میں متاثرین کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس وقت بھارت کے اسرائیل، فلسطین، ایران، خلیج کے دیگر بااثر مسلم ممالک، روس اور یوکرین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ امریکہ اور یوروپی ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مسلسل مضبوط ہو رہے ہیں۔ چین کے ساتھ بھارت نے ایل اے سی کا تنازع حل کر لیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی اسٹرٹیجک کامیابی ہے۔ اگر پاکستان جیسے بدمعاش پڑوسی ملک کو الگ رکھا جائے تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ کئی خیموں میں بٹے ہوئے موجودہ عالمی ماحول میں بھارت ایک’اَجات شترو‘کی شکل میں ابھرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس، اسرائیل، فلسطین، یوکرین اور ایران، بھارت سے امید کر رہے ہیں کہ وہ جنگ ختم کرانے میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
روس کے صدر پوتن اور اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ دونوں ممالک جنگ کو طول دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ بڑی شدت سے کسی ثالث کی تلاش میں ہیں۔ وزیراعظم مودی کی طرف سے اب تک کی گئی کوششوں میں تمام پارٹیاں نیک نیتی کی جھلک دیکھ رہی ہیں۔ اگر بھارت کی کوششوں سے روس اور یوکرین مذاکرات کی میز پر آگئے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ پوتن اور زیلنسکی کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقاتوں اور بات چیت سے امریکہ واقف ہے۔
غور طلب ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے 23 اگست کو کہا تھا کہ بھارت امن سربراہ اجلاس کی بنیاد بن سکتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے روس یوکرین جنگ کو ختم کے لیے بھارت کی’جرأت مندانہ سفارت کاری‘ کی تعریف کی ہے۔ دراصل، زیلنسکی چاہتے ہیں کہ روس کے ساتھ دوسرے امن سربراہ اجلاس کی میزبانی بھارت کرے۔ایسے میں بھارت کے سامنے اب تک کی سب سے بڑی سفارتی چنوتی آکھڑی ہوئی ہے۔ کیا بھارت روس- یوکرین مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے؟ اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو اس کا نفع و نقصان کیا ہو سکتا ہے؟ بھارت کی جرأت مندانہ خارجہ پالیسی امریکہ اور کئی مغربی ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں انتشار پھیلانے کی سازشیں مودی حکومت کے تیسرے دور میں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بھارت کو پریشان کرنے کے لیے باس کے پڑوسی ملکوں میں یہ طاقتیں پہلے ہی افراتفری پھیلا چکی ہیں۔ بنگلہ دیش کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔
کئی بار امریکہ اور یوروپی ممالک روس سے تیل خریدنے پر شکایت کر چکے ہیں مگر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ان کے دوہرے معیار کی یاد دلاتے ہوئے اس شکایت کو ایک طرح سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ ایسے ماحول میں بھارت کو روس اور یوکرین کے مابین ثالثی کے لیے میزبانی کرنے سے پہلے ان ملکوں کو دائرۂ اثر میں لینا پڑے گا۔ بھارت کو اس بات کا بھی دھیان رکھنا ہو گا کہ برکس کے ذریعے وہ چین اور روس کے خیمے میں کھڑا نہ نظر آئے۔ بھارت کو اپنی غیر جانبداری اور نیک نیتی کو برقرار رکھتے ہوئے ثالثی کے اقدام کے لیے آگے بڑھنا ہو گا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت کے بغیر ثالثی کی کامیابی مشکوک ہے۔ ایسے میں بھارت کو درپیش سفارتی چنوتی کا بڑی سنجیدگی سے جائزہ لینے کے بعد ہی آگے بڑھنا مناسب ہوگا۔n
[email protected]