فلسطین کے مسئلہ پر ہندوستان کی دیرینہ پالیسی سے افسوسناک انحراف: عبیداللّٰہ ناصر

0

عبیداللّٰہ ناصر

اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ جو ہندوستان1917 میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور کے اس اعلان سے کہ برطانیہ فلسطین کو تقسیم کرکے وہاں دنیا بھر کے یہودیوں کو اپنا ایک وطن دینے کو رضامند ہے، اسی وقت مہاتما گاندھی نے اس کی مخالفت میں لارڈ با الفور کو خط لکھ کر کہا تھا کہ فلسطین اسی طرح فلسطینیوں کا ہے جس طرح برطانیہ انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں کا ہے۔ بہرحال 1948 میں اسرائیل وجود میں آ ہی گیا، فلسطینی اپنے ہی گھر اور زمین سے بے گھر کر دیے گئے۔ ہندوستان فلسطینیوں کی حمایت میں چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ عالمی حالات خاص کر سوویت یونین کے زوال کے بعد سے پیدا ہوئے حالات کے تحت ہندوستان کو اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات بنانے پڑے لیکن فلسطینی کاز کے لیے خاص کر دو ریاستی فارمولہ کے تحت آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اس کی حمایت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔مگر 2014کے بعد ہندوستان میں مودی برانڈ سیاست کے آغاز سے داخلی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی فرق آگیا ہے۔ اگر چہ ہندوستان اب بھی دوریاستی فارمولہ کے تحت اس مسئلہ کے حل کا حامی ہے لیکن اسرائیل کی بربریت، ظلم اور نسل کشی کی نہ صرف سرکاری سطح پر درپردہ اور سنگھی کارکنوں کی کھلی حمایت اسے حاصل ہے۔ یہ کتنی شرم، افسوس اور غیر انسانی بات ہے کہ ہندوستان فلسطینیوں کی نسل کشی میں عملی طورسے شامل ہے اور اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے۔

ستم بالائے ستم ہندوستان کی حکومت اپنے عوام کو فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دے رہی ہے، خاص کر ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، جس کی تازہ ترین مثال مہاراشٹر حکومت کا ممبئی کے آزاد میدان میں اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دینا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر شرم کی بات یہ ہے کہ جب مارکسی کمیونسٹ پارٹی اس حکم کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ گئی تو نہ صرف اس کی درخواست خارج کر دی گئی بلکہ جج صاحبان نے جو تبصرہ کیا وہ احتجاج کرنے کے عوام کے بنیادی آئینی حق کے خلاف ہے، بلکہ انسانیت کو شرمندہ کرنے والا بھی ہے۔ کیا انسانیت کا درد سرحدوں کا محتاج ہے؟ جج صاحبان نے تو یہی کہا کہ غزہ میں جو ہو رہا آ پ اس کی فکر چھوڑئیے، اپنے ہی ملک میں کوڑے کرکٹ کی صفائی اور دیگر شہری مسائل کی فکر کریں۔ اتنا ہی نہیں کمیونسٹ پارٹی کو حب الوطنی کا بھی درس دیا گیا جیسے غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرنا وطن دشمنی ہو گئی۔گوتم، نانک، چشتی، گاندھی کا ہندوستان وسودھیو کٹم بکم(ساری دنیا ایک خاندان ہے)کا علمبردار ملک 80ہزار بھوکے پیاسے بمباری کا شکار، جہاں کھانہ لینے کے لیے لائن میں لگے بچوں کو موت مل رہی ہے، کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتا۔

اس ظلم، بربریت، نسل کشی اور قتل عام کے خلاف کانگریس پارلیمانی پارٹی کی لیڈر سونیا گاندھی نے ملک کے کئی بڑے اخباروں میں مضمون لکھ کر نہ صرف فلسطینی عوام سے یگانگی کا اظہار کیا ہے بلکہ مودی حکومت کے رویہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے خاموشی توڑنے اور ہندوستان کی دیرینہ پالیسی کے تحت اس قتل عام اور نسل کشی کی مذمت کرنے کی بات کہی ہے۔ وہیں لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے اسے وزیراعظم نریندر مودی کی اخلاقی بزدلی کی انتہا قرار دیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ دو ریاستی فارمولے کے تحت اس مسئلہ کے منصفانہ اور پائیدار حل نیز علاقہ میں امن و استحکام کی حمایت کی جس سے مودی حکومت روگردانی کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ نے اگرچہ ہندوستان کی اسی پالیسی کا اعادہ کیا ہے لیکن ما فی الضمیر کیا ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ دنیا خاص کر یوروپی ملکوں کی پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر بحث ہورہی ہے، کھل کر اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت کی جا رہی ہے، لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، ہندوستانی سڑکیں اور پارلیمنٹ اس معاملہ پر بالکل خاموش ہے۔ حکومت تو حکومت اپوزیشن میں بھی کسی نے اب تک اس مسئلہ پر ایوان میں بحث کا مطالبہ نہیں کیا۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی سمجھ لیں کہ محض مضمون لکھ دینے یا ٹویٹ کر دینے سے کام نہیں چلے گا، پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس میں انہیں ہی نہیں بلکہ اکھلیش یادو، ممتا بنرجی، اے کے اسٹالن وغیرہ سبھی کو اس پر بحث کے لیے نوٹس دینا چاہیے اور حکومت پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ سپلائی بند کرے اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں عملی تعاون نہ کرے ۔

بہرحال یہ خدائی انصاف ہی ہے کہ اسرائیل کے ظلم و بربریت کے ساتھ فلسطینیوں کی حمایت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ برطانیہ، فرانس، کناڈا، مالٹا سمیت یوروپ کے کئی ملکوں نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف عالمی عدالت نے نیتن یاہو کو معافی دینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں جنگی مجرم ہی برقرار رکھا ہے۔ حالانکہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں عرب حکمرانوں کی بے حسی اور بزدلی سب اہم فیکٹر ہے پھر بھی عرب ملکوں نے آزاد، خود مختار، فلسطینی مملکت جس کی راجدھانی یروشلم ہو، کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سفارتی رشتہ قائم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اردن نے ہیلی کاپٹر سے غذائی اشیا غزہ میں گرائی ہیں تو مصریوں نے سمندر کی لہروں سے غذائی اشیا بھیجنے کا نایاب طریقہ ڈھونڈھ نکالا ہے، اب تو امریکہ بھی راحتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیلی حکومت سے گفتگو کر رہا ہے مگر یہ سب کچھ دل بہلاوا ہے، فلسطینیوں کا قتل عام حسب سابق جاری ہے اور عالمی برادری کی صہیونیت کے سامنے بیچارگی، کسمپرسی کا منہ چڑھا رہی ہے۔

فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی تائید میں روزافزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، متحدہ اقوام کے 197میں سے147ملکوں نے فلسطینی ریاست کو یا تو منظوری دے دی ہے یا دینے کا اعلان کیا ہے۔ دراصل امریکہ کی ثالثی میں ہوئے اوسلو معاہدہ میں اسرائیل اس پر رضامند بھی ہوگیا تھا مگر وہ معاہدہ سے منحرف ہوگیا اور حسب معاہدہ مقبوضہ علاقہ خالی کرنے کے بجائے اس پر یہودی بستیاں تعمیر کرتا رہا۔ ایک طرف گفتگو دوسری جانب یہودی بستیوں کی تعمیر، جس سے عاجز آ کر فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل سے مذاکرت کا سلسلہ ترک کر دیا تھا۔ اوسلو معاہدہ سے انحراف کر کے اسرائیل نے امریکہ کو ٹھینگا دکھا دیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے،1967میں سلامتی کونسل نے امریکہ کی حمایت سے متفقہ قرار داد منظور کرکے اسرائیل کو جنگ میں جیتے گئے مقبوضہ علاقہ خالی کرنے کو کہا تھا جس پر عمل کرنا تو درکنار اسرائیل اپنی سرحدیں بڑھاتا چلا گیا اور یہ عالمی ادارہ بے بسی سے سب کچھ دیکھتا رہا اور آج بھی دیکھ رہا ہے۔اسرائیل کی یہ وعدہ خلافی ہی دراصل حماس جیسی انتہا پسند تنظیم کے وجود میں آنے کی خاص وجہ ہے، اگر اوسلو معاہدہ پر اسرائیل نے ایمانداری سے عمل کیا ہوتااور امریکہ ایماندار ثا لث کا کردار ادا کرتا تو مغربی ایشیا میں امن قائم ہوگیاہوتا، لیکن اسرائیل اور امریکہ کے خونیں گٹھ جوڑ کو فلسطینیوں کا خون منہ لگ چکا ہے، اس لیے وہ امن کی جانب ایک قدم بھی چلنے کو تیار نہیں ہیں، وہ اس مغالطہ میں ہیں کہ ایک ایک فلسطینی کو ختم کر کے وہ فلسطین کا مسئلہ ہی ختم کر دیں گے، مگر یہ ان کی بھینکر بھول ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی طاقتور یہودی لابی کا سپورٹ حاصل ہے، اس لیے کوئی بھی امریکی صدر اسرائیل کی لگام نہیں کس سکتا مگر حالت تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی اور پھر بقول ساحر لدھیانوی:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
اسرائیل اس یقینی دن کا انتظار کرے۔

obaidnasir@yahoo.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS