بین الاقوامی تعلیمی منظرنامے میں کیو ایس (Quacquarelli Symonds)کی ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ اقوام کی علمی بالادستی،تعلیمی سرمایہ کاری،تحقیقی اثر پذیری اور فکری پیش قدمی کا عالمی آئینہ بن چکی ہے۔ یہ درجہ بندی نہ صرف جامعات کی تدریسی و تحقیقی قابلیت کو جانچتی ہے،بلکہ ان کی عالمی ساکھ،بین الاقوامی روابط،طالب علموں اور اساتذہ کی تنوع پذیری،پائیدار ترقیاتی پالیسیوں اور تعلیمی ڈھانچے کی ہمہ جہتی کا گہرا تجزیہ بھی فراہم کرتی ہے۔
اس سال کی تازہ ترین QS رینکنگ 2026،جو حال ہی میں جاری ہوئی،دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے 1500 سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے۔ یہ صرف ایک اشاریہ نہیں بلکہ بین الاقوامی علمی منطقہ میں طاقت کی ازسرنو تقسیم کی دستاویز ہے،جہاں ایشیا کی جامعات اپنی بصیرت،تحقیق اور ساکھ کے ساتھ مغرب کے مقابل صف آرا ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور (NUS) کا 8واں مقام،یونیورسٹی آف ہانگ کانگ اور نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کا بالترتیب11واں اور 12واں درجہ اور چین کی پیکنگ و سنگھوا یونیورسٹیوں کی باوقار موجودگی یہ سب مل کر عالمی تعلیمی طاقت کے توازن میں ایک واضح مشرقی جھکائو کو ظاہر کرتی ہیں۔
ایسی صورت میں ہندوستان کی موجودہ حیثیت پر مسرت کی ملمع کاری اگرچہ ممکن ہے،لیکن حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کامیابی کا تجزیہ نہایت بے رحم تنقیدی نظر سے کریں۔ بیشک، 2015 میں صرف 11 ہندوستانی جامعات اس رینکنگ میں شامل تھیں،جب کہ اب ان کی تعداد 54 ہو گئی ہے۔ یہ بظاہر ترقی کی علامت ہے،مگر کیا ہم نے واقعی معیار کی وہ منازل طے کر لی ہیں جن کے بغیر عالمی افق پر کسی علمی ادارے کی توقیر قائم نہیں ہوسکتی؟
آئی آئی ٹی دہلی کا 123واں مقام اگرچہ بظاہر اطمینان بخش معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہی ادارہ دو برس قبل 197ویں نمبر پر تھا۔ اسے ایک مثبت اشاریہ تو کہا جا سکتا ہے، مگر اگر ہم میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کی مسلسل چودہویں بار اول پوزیشن، اسٹین فورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج،ہارورڈ اور امپیریئل کالج لندن جیسے اداروں کی ہمہ وقتی بالادستی پر نظر ڈالیں تو ہندوستانی جامعات کی پوزیشن مایوس کن حد تک پیچھے دکھائی دیتی ہے۔
یہی نہیں،عالمی رینکنگ کے اشاریے جن میں علمی و تحقیقی حوالہ جات،بین الاقوامی نیٹ ورک،تعلیمی وقار،طلبا و اساتذہ کی تنوع پذیری،روزگار میں اثر انگیزی اور پائیداری شامل ہیں، سبھی کے سبھی ہندوستانی اداروں کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہندوستانی جامعات بالخصوص تحقیق و اختراع کے میدان میں عالمی معیار سے کوسوں دور ہیں۔ اگر محض حوالہ جات یا تحقیقی اشاعتوں کی عالمی حیثیت پر نگاہ ڈالی جائے تو چین کی یونیورسٹیاں جو ایک دہائی پہلے تک مغربی اداروں کے مقابلے میں کہیں نہیں تھیں، آج پیکنگ، سنگھوا،فوڈان اور ژی جیانگ یونیورسٹیوں کی صورت میں تحقیق،اختراع اور صنعتی انضمام کا قابل رشک ماڈل بن چکی ہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہندوستانی جامعات آج بھی بیسویں صدی کے بوسیدہ نصاب،گھسی پٹی تدریسی روش اور انتظامی جمود کا شکار ہیں۔ نجی جامعات اگرچہ ابھرتی ہوئی امید کا استعارہ بن کر سامنے آ رہی ہیں خصوصاً اشوکا، شیونادر،او پی جندل اور احمدآباد یونیورسٹی جیسی نئی درسگاہیں، مگر ان کی پہنچ ابھی محدود ہے اور وہ صرف اعلیٰ طبقاتی حلقے تک محدود رہ گئی ہیں۔ سرکاری جامعات میں جو تحقیقی زوال اور انتظامی سست روی نظر آتی ہے، وہ صرف QS جیسے اعشاریوں ہی میں نہیں بلکہ ہمارے قومی فکری انحطاط میں بھی جھلکتی ہے۔
اب یہ امر بھی ناقابل تردید ہے کہ مغربی ممالک میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی لاگت،ویزا پالیسیوں کی سختی اور غیر ملکی طلبا کیلئے غیر دوستانہ سیاسی ماحول نے ہندوستان کیلئے ایک نادر موقع پیدا کر دیا ہے۔ OECD کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں سالانہ اوسط فیس 30,000 ڈالر، برطانیہ میں 25,000 پائونڈ تک جا پہنچتی ہے،جب کہ ہندوستانی اعلیٰ اداروں میں یہ صرف 2,000 سے 3,500 ڈالر کے درمیان ہے۔ مزید برآں، یہاں کے رہائشی اخراجات بھی مغرب کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس تناظر میں، اگر ہندوستان اعلیٰ معیار کی تعلیم، بین الاقوامی تسلیم شدہ اسناد، عالمی سطح پر مربوط نصاب اور تحقیقی اختراعات فراہم کرے، تو وہ بلاشبہ ایشیا،افریقہ اور لاطینی امریکہ کے طلبا کیلئے علمی مہاجرت کی سب سے موثر منزل بن سکتا ہے۔
تاہم،اس کیلئے محض خواب دیکھنا کافی نہیں،بلکہ ایک انقلابی تعلیمی و تحقیقی اصلاحات کا نفاذ ناگزیر ہے۔ ہمیں اپنے نصاب کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا،تحقیقی فنڈنگ میں اضافہ،تدریسی خودمختاری کا فروغ،بین الاقوامی جامعات کے ساتھ شراکت داری اور سب سے بڑھ کر،طلبا اور اساتذہ کی تخلیقی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔