نئی دہلی، ( یو این آئی ) وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس۔ جے شنکر نے منگل کو پارلیمنٹ میں کہا کہ حکومت بنگلہ دیش میں سنگین سیاسی صورتحال کے بارے میں ہندوستان بہت فکر مند ہے اور ہم اس وقت تک وہاں پر کڑی نظر رکھیں گے جب تک کہ اقلیتوں کی سلامتی اور ملک کی امن و امان کی صورتحال معمول پر نہیں آجاتی۔
ڈاکٹر جے شنکر نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک بیان میں کہا کہ پڑوسی ملک میں سیاسی صورتحال تشویشناک ہے اور حکومت اپنے سفارتی مشن کے ذریعے وہاں مقیم ہندوستانی شہریوں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں 19 ہزار ہندوستانی شہری ہیں جن میں تقریباً نو ہزار طلباء ہیں اور ان میں سے بہت سے طلباء جولائی میں وطن واپس آئے تھے۔ ہماری سفارتی موجودگی کے لحاظ سے ڈھاکہ میں ہائی کمیشن کے علاوہ چاٹگام ، راج شاہی، کھلنا اور سلہٹ میں ہمارے ذیلی ہائی کمیشن ہیں۔ ہماری توقع ہے کہ میزبان حکومت ان اداروں کے لیے ضروری حفاظتی تحفظ فراہم کرے گی۔ صورتحال مستحکم ہونے کے بعد ہم ان کے معمول کے کام کرنے کے منتظر ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہندوستان بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی صورتحال پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہاں سے خبریں آرہی ہیں کہ بہت سے گروپ اور تنظیمیں اقلیتوں کی حفاظت اور بہبود کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’یہ فطری بات ہے کہ ہماری گہری تشویش اس وقت تک رہے گی جب تک وہاں امن و امان کی صورتحال معمول پر نہیں آجاتی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پیچیدہ صورتحال کے پیش نظر سرحدوں پر تعینات سکیورٹی فورسز کو غیر معمولی طور پر چوکس رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان گزشتہ 24 گھنٹوں سے ڈھاکہ میں حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
بنگلہ دیش میں تازہ ترین صورتحال کے بارے میں تفصیلی معلومات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈھاکہ میں 5 اگست کو کرفیو کے نفاذ کے باوجود مظاہرین بڑی تعداد میں سڑکوں پر جمع ہوگئے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ (فوج) کے ساتھ میٹنگ کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا اور مختصر نوٹس پر انہوں نے کچھ عرصے کے لیے ہندوستان آنے کی اجازت کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسی وقت ہمیں بنگلہ دیشی حکام سے ہوائی پرواز کی اجازت کی درخواست بھی موصول ہوئی اور وہ (محترمہ حسینہ) پیر کی شام دہلی آئیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش میں 4 اگست کو حالات نے سنگین رخ اختیار کیا اور پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری اداروں پر حملے شروع ہوگئے جس کے بعد تشدد نے وسیع شکل اختیار کرلی۔ حکومت میں شامل لوگوں کی جائیدادوں پر ملک بھر میں حملے ہونے لگے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ خاص طور پر تشویش کی بات ہے کہ اقلیتوں، ان کے کاروباری اداروں اور مندروں پر بھی کئی مقامات پر حملے کیے گئے۔ ان حملوں کی مکمل تفصیلات ابھی واضح نہیں ہیں۔
ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ بنگلہ دیش میں اس سال جنوری میں ہونے والے انتخابات کے بعد تناؤ بڑھ گیا تھا اور وہاں کی سیاست میں پولرائزیشن اور تقسیم گہری ہونے لگی تھی۔ اس پس منظر میں جون میں شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ تشدد کے واقعات بڑھنے لگے، سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے، سڑک اور ریل کے راستے متاثر ہوئے۔ یہ تشدد جولائی میں بھی جاری رہا۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ اس دوران ہم نے بدستور تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا اور زور دیا کہ بات چیت کے ذریعے صورتحال کو معمول پر لا ئے کی صلاح دی ۔ ہم نے ایسی ہی درخواست مختلف سیاسی جماعتوں سے کی جن سے ہمارا رابطہ تھا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ 21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود عوامی مظاہروں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کے بعد وہاں کی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے حالات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتے چلے گئے اور تحریک اس مرحلے پر پہنچ گئی جہاں ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم محترمہ حسینہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں صورتحال اب بھی تشویشناک ہے۔ آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے پیر 5 اگست کو قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالنے اور عبوری حکومت بنانے کی بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں کے دوران ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مختلف حکومتوں کے دوران غیر معمولی طور پر قریبی تعلقات رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں تشدد اور عدم استحکام کے بارے میں ہندوستان کی تمام جماعتوں کے مشترکہ خدشات ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS