ڈاکٹر ایل مروگن
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کے لیے پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں ماہی پروری کے شعبے نے بھی اس سفر میں اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے آگے قدم بڑھا یاہے۔ وزیر اعظم کے ’سیوا، سوشاسن اور غریب کلیان‘ کی بدولت، گزشتہ نو برسوں میں ہندوستان کے ماہی پروری شعبے نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ملک کو ایک سرکردہ بلیو اکانومی بننے کی راہ پر مضبوطی سے آگے بڑھایا ہے۔
ہندوستان کو قدرت نے 8000 کلومیٹر سے زیادہ کے سمندری ساحلوں، وسیع خصوصی اقتصادی ڑون، چند سب سے بڑے دریا اور آبی ذخائر سے نوازا ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ محنت کش انسانی سرمائے کے پاس ہمیشہ سے ماہی پروری کے فروغ کی بے پناہ صلاحیت رہی ہے۔ لیکن، شاید سابقہ حکومتوں کی غفلت، بے حسی اور مفلوج پالیسی نے اسے مکمل طور پر ابھرنے کا موقع نہیں دیا۔ بہت سی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے بعد سے 2014 تک مرکزی حکومت ماہی پروری کے شعبے کی ترقی کے لیے 4000 کروڑ روپے سے بھی کم رقم جاری کی تھی۔
ماہی گیر، جسے کئی گانوں اور کہانیوں میں سمندر کا بادشاہ کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ روزی روٹی کمانے کے لیے جدوجہد کرتا تھا۔ مشہورتمل اداکار ایم جی رام چندرن (ایم جی آر) نے اپنی فلم ’پداگوٹی‘ میں ماہی گیروں کی اس حالت زار کو حساس طریقے سے دکھانے کی کوشش کی۔ ماہی گیروں کی تکالیف اور جدوجہد، ان کے استحصال اور بے بسی کی بے حس نظام کی دل آویز عکاسی نے ناظرین پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
یہ وزیر اعظم نریندر مودی ہی تھے جنہوں نے ہماری ماہی گیر برادریوں کے لیے بلیو اکانومی کی بے پناہ صلاحیت کو سمجھا اور اس شعبے کی منظم ترقی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی قیادت میں، مرکزی حکومت نے بلیو ریوولیوشن اسکیم (2015-5000 کروڑ روپے) اور فشریز اینڈ ایکوا کلچر انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ فنڈ (2017-7522کروڑ روپے) کے ذریعے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان اسکیموں نے ہندوستانی ماہی پروری میں سرگرمیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا، زمینی سطح کا بنیادی ڈھانچہ بنایا، اور 2.8 کروڑ ماہی گیروں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کی۔ ہندوستان کے ماہی پروری شعبے نے جیسے ہی آگے بڑھنا شروع کیا، وزیر اعظم مودی نے 2019 میں اس کی مرکوز ترقی کے لیے ماہی پروری کی ایک نئی وزارت بنائی۔
جب ہندوستانی ماہی پروری کا شعبہ ایک بڑی چھلانگ لگانے کی تیاری کر رہا تھا ، اچانک کووڈ-19 عالمی وبائی بیماری کی وجہ سے دنیا پوری طرح سے رک گئی۔ لیکن وزیراعظم مودی کی قیادت نے اس بحران کو ایک موقع میں بدل دیا، اور ماہی گیری کے شعبے کے لیے آتم نربھر بھارت پیکیج کا اعلان کیا اور ستمبر 2020 میں پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) کے تحت اسے 20050 کروڑ روپے دیئے گئے، جو ماہی پروری کے شعبے میں ہندوستان کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری تھی۔
سرمایہ کاری کے اس تازہ حصے اور توجہ کی بدولت، پی ایم ایم ایس وائی نے مچھلی کی پیداوار، پیداواری صلاحیت اور معیار سے لے کر ٹیکنالوجی، ماہی گیری کے بعد کے بنیادی ڈھانچے اور مارکیٹنگ تک فشریز ویلیو چین میں اہم خلاء کو دور کرنا شروع کیا۔ اس نے اہم اسٹریٹجک ترجیحی شعبوں: سمندرمیں ماہی گیری، اندرون ملک ماہی گیری، ماہی گیروں کی فلاح و بہبود، انفراسٹرکچر اور مچھلیوں کو پکڑنے کے بعدان کے بندوبست ، ٹھنڈے پانی کی ماہی گیری، آرائشی ماہی گیری، آبی صحت کا انتظام، سمندری گھاس کی کاشت وغیرہ کی نشاندہی کی ہے۔
گزشتہ نو برسوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے مرکزی/ریاستی حکومت کی ایجنسیوں اور ماہی گیروں کو شامل کرنے کی مسلسل کوششوں نے ہندوستانی ماہی گیری کی حالت کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ بنیادی انفراسٹرکچر جیسے 107 سے زیادہ فشنگ ہاربرز اور فش لینڈنگ سنٹرز جو محفوظ لینڈنگ، برتھنگ اور لوڈنگ ان لوڈنگ کے لیے ضروری ہیں ،ان کی تعمیر/مرمت کی گئی۔ کوچین، چنئی، ممبئی، وشاکھاپٹنم اور پارادیپ میں ماہی گیری کے بڑے بندرگاہوں کی جدید کاری کو فعال کر دیا گیا ہے۔
ماہی گیروں کی آمدنی کا براہ راست تعلق مچھلی پکڑنے کے بعد کے انتظام سے ہے یعنی مچھلیوں کا کیسے ذخیرہ کیا جائے ، محفوظ کیا جائے، نقل و حمل اور فروخت کیسے کیا جائے۔ 25000 سے زیادہ مچھلیوں کی نقل و حمل کی سہولیات، 6700 فش کیوسک/بازاروں، اور 560 کولڈ اسٹوریج کو دی گئی منظوریوں کے ساتھ، زمینی سطح پر ماہی گیری کا یہ بنیادی ڈھانچہ تیزی سے مضبوط ہو رہا ہے۔
ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں کام کرنے کے خطرات اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ان خطرات کو کم کرنے کے لیے مچھلی پکڑنے کے 1043 موجودہ جہازوں کی جدیدکاری ، 6468 کشتیوں اور گہرے سمندر میں مچھلی پکڑنے کے461 جہازوں کو بدلنے اور سیٹلائٹ پر مبنی مواصلات کا استعمال کرتے ہوئے سمندری ماہی گیری کے جہازوں پر 1 لاکھ ٹرانسپونڈرز کی تنصیب کے لیے منظوری دی گئی ہے۔پی ایم ایم ایس وائی نے روایتی آبی ذخائرسے اندرون ملک ماہی گیری کو باہرنکالا، اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جس سے بہت سے باصلاحیت اور کاروباری نوجوانوں کو ماہی گیری میں قدم رکھنے کی ترغیب ملی۔ آج، وادی کشمیر کی نوجوان خاتون صنعت کار ری سرکولیٹری ایکواکلچرسسٹم کا استعمال کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی کے اندررینبوٹراؤٹ کو مؤثر طریقے سے پال رہی ہیں۔ نیلور کے ایکواپرینیور ،بائیو فلوک جھینگے کی بدولت کامیاب برآمد کنندگان بن گئے ہیں۔
پی ایم ایم ایس وائی نے ماہی گیری کو غیر روایتی علاقوں تک پھیلانے میں مدد کی ہے۔ تقریباً 20000 ہیکٹیئر تازہ تالاب کے رقبے کو اندرون ملک آبی زراعت کے تحت لایا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ خشکی سے گھرے ہریانہ اور راجستھان کے کسان بھی آبی زراعت کے ذریعے اپنی کھاری بنجر زمینوں کو کامیابی سے دولت مند زمینوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔
پی ایم ایم ایس وائی نے ماہی گیر خواتین کو بااختیار بنایا ہے کہ وہ آرائشی ماہی گیری، موتیوں کی کاشت اور سمندری گھاس کی کاشت جیسے آمدنی کے ذرائع اور متبادل ذریعہ معاش تلاش کریں۔ تمل ناڈو کے رامناتھ پورم ضلع میں حال ہی میں 127 کروڑ روپے کا سی ویڈ پارک شروع کیا گیا ہے جو واقعی مودی حکومت کا ایک اہم قدم ہے۔
بیج، خوراک اور نسل ماہی گیری کے شعبے کے اہم اجزاء ہیں۔ پی ایم ایم ایس وائی نے 900 فش فیڈ پلانٹس، 755 ہیچریوں کو فعال کیا ہے، اور چنئی میں ہندوستانی سفید کیکڑے کی تحقیق اور جینیاتی بہتری، مخصوص پیتھوجین فری بروڈ اسٹاک کی ترقی اور انڈمان میں ٹائیگر جھینگا پالنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
ماہی گیروں اور ماہی گیری کے کاروباریوں کی فلاح و بہبود اور ان کی زندگیوں کی بہتری بلیو اکانومی کے مقاصد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ پابندی کی مدت میں ماہی گیروں کو غذائی امداد، مربوط ساحلی دیہاتوں کی ترقی، ماہی گیروں کی مدد کے لیے سیکڑوں نوجوان ساگر متر، گروپ حادثاتی بیمہ اسکیم، کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادارہ جاتی مالی مدد جیسے بہت سے اقدامات ہندوستانی ماہی پروری کی جامع ترقی کی تکمیل کر رہے ہیں۔
ہندوستانی ماہی گیروں کے ساتھ مودی حکومت کی شراکت داری نے انہیں بااختیار بنایا ہے، انہیں اعتماد اور فخر کا احساس دیا ہے۔ دہلی کے لال قلعہ میں یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پر ملک بھر میں ماہی گیروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس شراکت داری کو ماہی پروری کے وزیر پرشوتم روپالا کی ہندوستان کے ماہی گیروں کے ساتھ براہ راست بات چیت کے ذریعے مسلسل تقویت ملتی ہے، جس کا اہتمام ساگر پریکرما کی ایک منفرد پہل کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو سمندری اور ساحلی راستے سے 8000 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے ماہی گیروں کے گاؤوں کا دورہ کرنے، ماہی گیروں سے ملنے اور بات چیت کرنے، اور مشاہدہ کرنے ،زمینی پالیسیوں اور منصوبوں کے نفاذ پر مبنی ہے۔ حال ہی میں جب ساحلی آبی زراعت پر غیر یقینی کے سیاہ بادل منڈلا رہے تھے، حساس مودی حکومت نے تیزی سے کام کیا اور ساحلی آبی زراعت کی سرگرمیوں سے وابستہ لاکھوں لوگوں کے خدشات کو دور کرتے ہوئے، کوسٹل ایکوا کلچر ترمیمی ایکٹ 2023 لایا۔
اس سال ستمبر میں، جب ہم پی ایم ایم ایس وائی کی تیسری سالگرہ منا رہے ہیں، تو کوئی بھی ہندوستانی ماہی گیری کے بدلے ہوئے منظرنامہ کو دیکھ سکتا ہے۔ ہندوستان کا شمار مچھلی اور آبی زراعت کی پیداوار کے تین سرفہرست ممالک میں کیا جاتا ہے، اور آج ہندوستان دنیا میں جھینگے کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پی ایم ایم ایس وائی کے تحت ذیلی اسکیم کے طور پر 6000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جس سے ماہی گیری کے لیے گزشتہ نو سالوں میں 38500 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
آج، ہندوستان میں مچھلی کی پیداوار (174 لاکھ ٹن عارضی اعداد و شمار 23-2022) اور برآمدسے ہونیوالی آمدنی اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ 2014 سے گزشتہ نو برسوں کے دوران مچھلی کی مجموعی پیداوار، گزشتہ تیس برسوں (2014-1984) کے دوران مچھلی کی پیداوار کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ کیکڑے کی پیداوار 14-2013 میں 3.22 لاکھ ٹن تھی جو 267 فیصد بڑھ کر 23-2022 میں 11.84 لاکھ ٹن ہو گئی۔اسی طرح ہندوستان کی سمندری خوراک کی برآمدات 14-2013 میں 30213 کروڑ روپے تھی ، وہ اب دگنی ہو کر 23-2022 میں 63969 کروڑ روپے ہوگئی ہیں۔
گزشتہ نو برسوں میں تیار کیا گیا ماہی پروری کا ماحولیاتی نظام تیزی سے پختہ ہو رہا ہے، اس کے شاندار نتائج سامنے آرہے ہیں اور ہماری ماہی گیر برادریوں کی آمدنی کا ذریعہ بن رہا ہے۔جیسے جیسے ماہی گیروں اور حکومت کے درمیان ترقیاتی شراکت داری بلیو اکانومی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے مضبوط ہو رہی ہے، کاش کہ آنجہانی ایم جی آر آج زندہ ہوتے، تو انہیں یہ دیکھ کر یقیناً خوشی ہوتی کہ کس طرح وزیر اعظم مودی اپنی مخلصانہ کوششوں اور واضح وڑن کے ساتھ فلم’پداگوٹی‘ میں دکھائی گئی ماہی گیروں کی پریشانیوں کو بخوبی دور کر رہے ہیں، اور سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ’منتر‘ کے ذریعے انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں۔
مضمون نگار وزیر مملکت برائے ماہی پروری ، مویشی پروری اور ڈیری، اور اطلاعات و نشریات ، حکومت ہند ہیں