ہندوستانی محققین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت : پرمود بھارگو

0

پرمود بھارگو

پرندوں کے پروں کی نشوونما اپنے طور پر ہوتی ہے لیکن ہوا کے بغیر کوئی بھی پرندہ اڑان نہیں بھرسکتا۔ یہی حال ہندوستان میں اختراعی تجربہ کاروں کا ہے۔ وہ بے پناہ تخیلاتی صلاحیت کے مالک ہیں، لیکن ان کے تصورات کو شکل دینے کے لیے حوصلہ افزائی اور ماحول کی کمی ہے۔ حالانکہ11سال سے برسراقتدار نریندر مودی حکومت نے اس ماحول کو بنانے میں ناقابل یقین کام کیا ہے، لیکن اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غیرمعقول فیصلوں کی وجہ سے ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبا کی اصل سوچ کو تحقیق کی سمت میں ترغیب دیں۔ کیوں کہ حال ہی میں ٹرمپ نے ناسا اور نیشنل سائنس فاؤنڈیشن جیسے تحقیقی ترقیاتی اداروں کے بجٹ میں50فیصد سے زیادہ کی کٹوتی کردی ہے۔ دوسری طرف H-1B ویزا کے لیے درخواست کی فیس میں100,000ڈالر یعنی تقریباً 86لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی کی شرط عائد کردی ہے۔ اس قسم کے ویزا سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے وہ ہنرمندہندوستانی نوجوان ہیں جو امریکی آئی ٹی کمپنیوں میں کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ٹرمپ مستقبل میں ایسے مزید قانون سازی کے اقدامات کرسکتے ہیں جس سے نوجوان کاروباری افراد کو مواقع حاصل ہونے میں کمی آئے۔لہٰذا، ہندوستان کو ایسے تخیلاتی محققین کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے جن میں اختراعی صلاحیتیںہیں۔

تاہم ناسا اور نیشنل فاؤنڈیشن کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی کے بعد یوروپ نے ’چوز یوروپ فار سائنس‘ تھیم پر مئی-2025میں ایک اجلاس منعقد کرکے دنیا بھر کے محققین کے لیے اپنے اداروںکے دروازے کھول دیے ہیں ۔ فرانس اور بھارت نے اپنے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ چین پہلے سے ہی اسکول کی سطح پر طلبا کی اصل سوچ اور اختراع کے امکانات کو پہچان کر طلبا کو تحقیق کی سمت میں راغب کرنے لگا ہے۔ ہندوستان نے نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن قائم کرکے ایک لاکھ کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے، جس سے تحقیق کی سوچ کو ایجادات کی شکل میں مکمل کیا جاسکے۔ اب طلبا مالی آزادی کے ساتھ اپنی تحقیق کو آگے بڑھا سکیں گے۔ موجودہ اور مستقبل کی تحقیق اے آئی، روبوٹکس، کوانٹم کمپیوٹر، خلائی سائنس، ریاضی اور اسٹیم سائنس کی ریسرچ سے وابستہ ہوں گے۔آج کے وقت میں ناسا اور ہندوستان سپرکمپیوٹر اور ڈیجیٹل مواصلات کے ذریعہ پانینی کی ’اشٹادھیائی‘ کتاب میں مذکور سنسکرت کوقابل رسائی زبان میں تبدیل کرنے کے لیے مشترکہ تحقیق میں مصروف ہیں۔ سنسکرت کی لسانی درستگی اور منطق کے سبب اسے مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس جیسی جدید ٹیکنالوجی میں استعمال کرنے کے امکانات میں اضافہ ہورہا ہے۔

سنسکرت گرامر کے نظام کو تین ہزار سال سے بھی زیادہ برس پہلے مہارشی پانینی نے مرتب کیا تھا۔ سائنسداں اسے لسانی سائنس کی ایک منفرد مثال سمجھتے ہیں۔ پانینی کی گرامر سنسکرت زبان کے لیے بنائے گئے اشٹادھیائی نامی گرنتھ پر مبنی ہے،جس میں تقریباً4000سوتر ہیں۔ یہ گرامر ایک انتہائی سائنسی اور پیچیدہ تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس نے سنسکرت کو بہتر اور معیاری بنایا ہے۔ پانینی کے نظام کو دنیا کا پہلا رسمی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی معاون علامتوں (لاحقوں) کے نظام نے کمپیوٹر پروگرامنگ زبانوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ سنسکرت ایک ہم آہنگ ’’کمپیوٹر کے موافق زبان‘‘ ہے۔ اس لیے اسے اے آئی اور روبوٹکس ٹیکنالوجی کے لیے مفید زبان سمجھا جا رہا ہے۔ چونکہ ہندوستانی نوجوان فطری طور پر اپنی مادری زبان میں ماہر ہیں اور سنسکرت ان زبانوں کی ماں ہے، اس لیے ان کے لیے مذکورہ شعبوں میں نئی تحقیق کرنا آسان ہوگا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق ادب پرصرف مغربی مصنّفین کا غلبہ ہے۔ مغربی ممالک کی سائنسی دریافتوں سے ہی یہ ادب بھرا پڑا ہے۔ ہندوستان میں بھی اسی لٹریچر کی نصابی کتب میں تقلید ہے۔اس لٹریچر میں نہ تو ہمارے قدیم سائنس دانوں کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کی ایجادات کا۔ ایسا اس لیے ہوا، کیوں کہ ہم نہ خود اپنے موجدوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دیتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کے ساتھ ہمارا سلوک بھی اکثر تضحیک اور توہین آمیز رہتا ہے۔ تاہم، اب مسلسل ایسی مستند معلومات میڈیا میں آ رہی ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ قدیم ہندوستان سائنسی نقطہ نظر سے انتہائی خوشحال تھا۔ سنسکرت گرنتھوں سے یہی علم انگریزی، فارسی اور عربی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مغرب پہنچا، جہاں تخیل کے متلاشیوں نے ہندوستانی اصولوں کو سائنسی شکل میں ڈھال کر، بے شمار ایجادات اور نظریات تخلیق کیے اور انہیں پیٹنٹ کرا لیا۔ ان میں سے زیادہ تر مغربی سائنسداںاعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ درحقیقت انہیں بیوقوف ہونے کی سزا کے طور پر اسکولوں سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

ایک اختراعی محقق کو متجسس اور تخیلاتی ہونا چاہیے۔ کوئی محقق خواہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو، وہ بغیر تخیل کے اصلی یا نئی ایجادات تخلیق نہیں کر سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں سے طلبا جو تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس کی ایک حد ہوتی ہے، وہ صرف اتنا ہی بتاتے اور سکھاتے ہیں جتنا پہلے ہوچکا ہے۔ ایجاد تخیل کی وہ زنجیر ہے، جو کچھ پہلے کیا جا چکا ہے،سے آگے کی یعنی کچھ بالکل نیا کرنے کے تجسس کی بنیاد فراہم کرتی ہے ۔ واضح ہے، موجدوں، مصنّفین یا نئے نظریات کے حامیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے کسی مجبوری کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے ہم جب نامور سائنسدانوں کی سوانح حیات پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، نہ ہی سائنسی اداروں میں کام کرتے تھے اور نہ ہی ان کے اردگرد سائنسی ماحول تھا۔ ان کے پاس تجربات کرنے کے لیے لیبارٹریز بھی دستیاب نہیں تھیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصل ہنر متجسس کے لاشعور میں کہیں چھپا ہوتا ہے۔ اگر باصلاحیت افراد یا اساتذہ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جو تخیل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے تقویت دیتا ہے، تو دیہی ہندوستان سے بہت سے سائنسداں اور موجد ابھر سکتے ہیں۔ اس سمت میں ایک اچھی پہل آئی آئی ٹی مدراس میں ’’سوچ کا پاٹھ‘‘ پر ایک کورس کے آغاز کے ساتھ کی گئی ہے۔ اگر اساتذہ طلبا کے لاشعور میں گہرائی تک سرایت کر گئی اس تخیلاتی سوچ کو پہچاننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس نصاب کی اہمیت مستقبل قریب میں ثابت ہو جائے گی۔

ہندوستان سائنسدانوں اور انجینئروں کی پیداوار میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستانی محققین کا عالمی فیصد 2فیصدہے اورسب سے بہترین اور مقبول ترین تحقیقی مقالوں کی پیش کش میں ہمارا تعاون2.4 فیصد ہے۔ تاہم، یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان دنیا کے29تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان نے ہر صورت حال کو ایک چیلنج اور موقع کے طور پر قبول کیا ہے، جسے دوسرے ممالک نے دینے سے انکار کردیا تھا۔ ایک وقت میں روس نے ہندوستان کو خلائی میزائل لانچ کرنے کے لیے کرائیوجینک انجن ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تب اے پی جے عبدالکلام نے اپنی ذہانت اور مقامی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اسے تیار کیا اور آج ہم خلا میں ایک بڑی عالمی طاقت ہیں۔ اسی طرح 1987 میں امریکہ نے ہمیں سپر کمپیوٹر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تب ماہر طبیعیات وجے پانڈورنگ بھٹکر نے اس صورتحال کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور ہندوستان کا پہلا سپر کمپیوٹر ’پرم‘ اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا۔ اس لیے ٹرمپ کی رکاوٹوں کو ہمیں ایک موقع کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

pramod.bhargava15@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS