عبدالسلام عاصم
ایک رہائشی سوسائٹی کی تعمیر کے زمانے کے رُکن کچھ برس سوسائٹی میں گزارنے کے بعد اپنا فلیٹ بیچ کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ دو دہائیوں کے بعد لوٹے تو پرانے دوستوں سے ملنے سوسائٹی پہنچے۔ گیٹ پر حیران کھڑے چاروں طرف دیکھتے رہے۔ اِس احساس کے ساتھ کہ غلط پتے پر آگئے ہیں، انہوں نے مدد کیلئے اپنے ایک سوسائٹی نشیں دوست کو فون کیا۔ اُن کی پریشانی سننے کے بعد دوست نے کہا کہ آپ بالکل صحیح پتے پر آئے ہیں۔ یہ سوسائٹی وہی ہے جسے آپ چھوڑ گئے تھے۔ بس اتنا فرق آیا ہے تمام تر تعمیرات کی جگہ تجاوزات نے لے لی ہے۔ آپ گیٹ پر ہی رہیں، میں مدد کو آ رہا ہوں۔یہ ہے وہ منظم سماجی منظرنامہ جس میں بعض ایسی غیر منظم تعمیرات کو گرانے کی بات کی جارہی ہے جورہنے والوں کی سہولت میں غیر قانونی اضافے کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے۔ زرعی اور دیگر نوعیت کی زمین کو سر چھپانے کے استعمال میں لانے کے جو لوگ خاطی ہیں، اُن کی خطا میں اُن کی بے بسی کا دخل ہے،تجاوزات برائے عیش کا نہیں۔
نام نہاد ذمہ داروں پر مشتمل اِس سماجی پس منظر میں آئیے ملک کے موجودہ حالات، اندیشے اور امکانات کے حوالے سے وہ باتیں کرتے ہیں جو آج کل عام نشستوں کی خاص موضوعات ہیں۔نظرثانی شدہ تاریخیں تو ہم سبھی پڑھتے آئے ہیں۔ اپنے سامنے مرتب ہوتے ہوئے پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔پچھلے دنوں ایک پرائیویٹ ڈسکشن میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ قومی منظرنامہ سب کے سامنے ہے۔ دیکھنے والوں میں دوسروں کے ساتھ آپ بھی ہیں۔ اس رُخ پر آپ کو ہمیشہ اندیشوں سے زیادہ امکانات کیوں اور کیسے نظر آتے ہیں! کیا آپ اس کا روایتی اور لمبی چوڑی تقریر کے بغیر دو ٹوک جواب دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مجلسی ہرگز نہیں، اس لیے تقریر کا اندیشہ تو یہیں ختم ہوا۔ رہ گئی بات امکانات کی تو اس کیلئے میرے خیال میں ایک منظر نامہ دکھانا کافی ہوگا، بشرطیکہ آپ دیکھنا چاہیں۔
منظر نامہ یہ ہے کہ ایک طرف ہمسایہ پاکستان سے ترکی تک مسلمانوں کے دسیوںفرقے ہزاروں کی تعداد میں ایک دوسرے کو قتل کرتے پھر رہے ہیں۔دوسری جانب ہندوستان میں بھی مسلمان ایک سے زیادہ فرقوں میں بٹے ہیں لیکن ان کی باہمی نفرتیں قطعی خونریز نہیں۔ کیا یہ ملت ِاسلامیہ ہند پر بظاہراللہ پاک کی خاص نعمت نہیںکہ تمام تر بلکہ شدید تر اختلافات کے باوجود ہندوستانی مسلمان اپنے آپ میں کثرت میں وحدت کا آئینہ دار ہیں۔ اس منظرنامے کو بڑے کینوس پر اس امکان کے ساتھ دیکھنے میں کیا قباحت ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک دن کثرت میں وحدت کے اس دائرے کو بین مذاہب نفرت ختم کرنے تک دراز کرنے میں ان شاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔
رہ گئی بات نئی نسل کی تو اکثریت اور اقلیت دونوں کے یہاں اُس کے قابل لحاظ حلقے کی توجہ اب پہلے سے زیادہ عصری تعلیم اور معاشرتی ترقی کی طرف ہے۔ دونوں طرف جو چند گمراہ نوجوان مذہبی انتہاپسندوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں وہ بھی جلد قابو میں آ جائیں گے کیونکہ زمانے کی رفتار اب اتنی تیز ہو گئی ہے کہ کسی بھی اچھی تبدیلی کیلئے اب ہمیں صدیوں انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ دہائیوں میں تبدیلی آئے گی جو سب کیلئے خوشگوار ہو گی۔ تازہ منظر نامے میں جہانگیر پوری میں ’’ محبت‘‘ کو زخم پہنچانے والی ’’ نفرت‘‘ کو دونوں حلقوں کے مقامی لوگوںنے مسترد کر دیا ہے۔ ایسا کیسے ہوا! یہ سمجھنے کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی آپ جن صائب الرائے لوگوں کی بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے اُن کی کچھ باتیں انتہائی معرکے کی ثابت ہوتی ہیں۔ آج کل منفی رُجحانات پر قابو پانے کی مثبت کوششوں میں مصروف بعض جیالوں کا یہ اصرار ہے کہ آزمائش کو مواقع میں بدلو۔اس کے لیے کچھ لوگ اب عملاً سرگرم عمل ہیں۔ میرے ناقص خیال میں نقصِ امن کے تازہ سانحہ سے اسی طور پر نمٹا گیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ایسی دوررس اور کامیاب کوششیں میڈیا میں سنسنی خیزخبروں کی بھیڑ میںزیادہ نمایاں نہیں ہو پاتیں۔
پچھلے ہفتے کے اواخر میں پتہ چلا کہ سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن(سی بی ایس ای) نے نئے تعلیمی سیشن کے لیے معلنہ نصاب میں درجہ دہم کی سماجیات کی کتاب میں سے فیض احمد فیض کی شاعری اور یازدہم کی تاریخ کی کتاب میں سے بحیثیت مذہب اسلام کے تعارف اور اس کی توسیع سے متعلق مواد کو ہٹا دیا ہے۔ دوازدہم کی کتاب سے مغل عہد سے متعلق باب میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور کچھ ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ ان احذاف و ترمیمات کی بعض حلقوں نے موافقت کی ہے تو بعض مخالف رہے۔اس حوالے سے دونوں حلقوں کے تاثرات اب اخباری دستاویزات کا حصہ ہیں۔ ایسی تبدیلیوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اس نتیجے سے کم و بیش سبھی اتفاق کر لیں گے کہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ نظر ثانی شدہ تاریخ کے نام پر بااختیار حلقوں نے ہر عہد میں ایسی ہی جسارتوں تک اپنی توانائی کا محدود مفادات کیلئے استعمال کیا ہے۔ ہمسایہ پاکستان نے تو متحدہ ہندوستان، 1947 کے بٹوارے اور 1971 میں مملکت برطانیہ داد کے دو لخت ہونے کے واقعات تک کو نہ صرف یکطرفہ فرقہ وارانہ رنگ دیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو سرے سے غلط نہیں ہوگا کہ اصل واقعات کو یکسر بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ بر صغیر کا المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے اسباب اور پاکستان کی تشکیل کے جواز تک کو بھنانے میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ تقسیم کے صدمے کے ساتھ ملنے والی آزادی کے زخم کو سیکولرزم کے مرہم سے بھرنے میں اگر ہندوستان ناکام رہا تو پاکستان نے بھی دوقومی نظریے کو ذو لسانی نظریے تک فروغ دے کر اپنے ہی وجود کو دولخت کر لیا۔کہتے ہیں پڑوس ٹھیک نہ ہو تو اچھے گھر بھی کسی نہ کسی حد تک متاثر ہونے لگتے ہیں۔اس کے برعکس ایسی نظیر بہت کم سامنے آتی ہے جس میں اچھی صحبت لوگوں کو بدل دیتی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کی سیکولر جمہوریت سے پاکستانی سیاست کوئی فیض نہیں اُٹھا سکی۔ دوسری جانب پاکستان کی فرقہ وارانہ سیاست ہندوستانی سیاسی فکر کو مرحلہ وارمتاثر کرتی گئی۔
اس وقت پورے برصغیر میں زندگی کو بنیادی انسانی حق ماننے سے انکار کی لہر چلی ہوئی ہے۔ ایسا کیوں ہے! سنجیدہ فکر رکھنے والوں کیلئے یہ سمجھنا مشکل نہیں لیکن اُن لوگوں کو سمجھانا مشکل ہے جو اِن دنوں جوابی ذہنی کنڈیشننگ کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اصل میںکوئی نظریاتی تحریک جس وقت کامیابی کے ساتھ چلتی ہے، اسی وقت اُس کے ممکنہ منفی نتائج بھی مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر جب وقت کی پرورش اُن کے قدم جوانی کی دہلیز پار کراتی ہے توناگزیر تباہی مچتی ہے۔ہم کم و بیش اُسی عہد کے ناظر ہیں۔بہرحال غیر سنجیدہ اٹھان زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہتی۔جوانی کے نشے میں کسی زیادتی کی پروا نہ کرنے والی سوچ پر دیکھتے ہی دیکھتے ضعف طاری ہونے لگتی ہے۔ عقائد کی تاریخ ایسی نظیروں سے اٹی پڑی ہے۔ تازہ مرحلے کے گواہ ہم ہیں۔
جن قوموں کے یہاں نظریاتی اتار چڑھاؤ کے بے ہنگم سلسلے پر علم نے قابو پا لیا اُن کی عوامی زندگی ذاتی عقائد کی نمائش سے پاک ہوگئی ہے۔عالمی تغیرات پر نظر ڈالیں تو یہ دائرہ مسلسل وسعت پذیر نظر آئے گا۔سیاسی بالادستی کیلئے مذاہب کی آڑ لینے کا زور مغربی ایشیا میں بھی ٹوٹ رہا ہے۔ ایران، سعودی عرب، اسرائیل سب محدود مفادات والی سوچ سے باہر نکل رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال نے مغرب کو صرف جھٹکا ہی نہیں لگایا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہندوستان نے دہلی میں رائے سینا ڈائیلاگ میں چین کی جارحیت اور افغانستان کے تازہ بحران کے پس منظر میں مغرب کے کردار کو جس طرح بے نقاب کیا ہے، وہ آنے والے دنوں میں نہ صرف بین الاقوامی سوچ میں تبدیلی لائے گا بلکہ قومی زندگیاںبھی بہت حد تک قرار آشنا ہوں گی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]