ہندوستانی معیشت: بحران اور امکانات

0

ہندوستان کی معیشت اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف روپے کی گرتی ہوئی قدر اور بڑھتی ہوئی افراط زر ہے تو دوسری طرف اقتصادی ترقی کی اعتدال پر آتی ہوئی رفتار۔ ان چیلنجز کے درمیان غیرحکیمانہ حکومتی پالیسی بھی معیشت کو تباہی کی جانب لے جارہی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ہندوستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ جن دنوں روپے کی قدر میں کمی کو اقتصادی بدانتظامی کی علامت سمجھا جاتا تھا، ان دنوں نریندر مودی نے منموہن سنگھ کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 2014 کے انتخابات میں مودی کے دعوے کہ اقتدار میں آنے کے بعد روپے کو 40 کے مقابلے میں مستحکم کیا جائے گا، عوام کیلئے ایک دلکش وعدہ تھا۔ لیکن موجودہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 86.59 تک گر چکی ہے جو مودی سرکار کے اقتصادی منصوبوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
جہاں تک روپے کی گراوٹ کی وجوہات کا معاملہ ہے، وہ ایک مختلف صورتحال ہے۔ عالمی منڈی میں امریکی معیشت کی بحالی، بے روزگاری میں کمی اور امریکی سود کی شرحوں میں استحکام نے ڈالر کو تقویت دی ہے۔ اس کے برعکس ہندوستانی معیشت کی ترقی کی رفتار سست ہو چکی ہے۔ روزگار کے مواقع میں کمی، قوت خرید میں جمود اور بازار میں طلب کی کمی نے روپے پر دبائو بڑھا دیا ہے۔ مزید یہ کہ روسی تیل پر امریکی پابندیوں نے ہندوستان کی تیل کی درآمدی لاگت میں اضافہ کر دیا ہے جس سے غیر ملکی تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسے چکر کو جنم دے رہے ہیں جس سے نکلنا آسان نہیں۔معاشی مشکلات کے درمیان ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دبائو بڑھ رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو درآمدی خام مال کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ادھر ریزرو بینک آف انڈیا(RBI) نے بھی افراط زر کے دبائو اور روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے سود کی شرح میں کمی سے گریز کیا ہے۔ آر بی آئی کا یہ فیصلہ جہاں سرمایہ کاری کو روکنے میں کردار ادا کررہا ہے، وہیں معیشت کی بحالی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں حالیہ کمی ایک خوش آئند اشارہ ہے۔ دسمبر 2024 میں افراطِ زر 5.22فیصد کی چار ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی جو گزشتہ مہینے 5.48فیصد تھی۔ خوراک کی افراط زر بھی 8.4 فیصد پر آگئی جو اس سے قبل 9 فیصد تھی۔ بینک آف بڑودہ کے چیف اکنامسٹ مدن سبنویس کے مطابق سردیوں کی فصلوں کی قیمتوں میں کمی نے خوراک کی قیمتوں کو سکون بخشا ہے۔ لیکن بلند افراط زر اب بھی ایک مستقل مسئلہ ہے اور اس کے حل کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن نہیں۔

ادھرFICCI کے تازہ ترین اکنامک آئوٹ لک سروے کے مطابق ہندوستان کی جی ڈی پی کی ترقی 2024-25میں 6.4 فیصد رہنے کی توقع ہے جو کہ گزشتہ سال 8.2 فیصد تھی۔ یہ سست روی معاشی ترقی میں درپیش رکاوٹوں کی عکاس ہے۔ زراعت اور دیہی معیشت میں کچھ امید کی کرن نظر آتی ہے لیکن صنعت اور خدمات کے شعبے میں ترقی کی رفتار معتدل رہی ہے۔ نجی سرمایہ کاری کی کمی اور جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال نے ترقی کو مزید محدود کر دیا ہے۔ایسے وقت میں حکومت کی بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں نہ صرف ناقص ہیں بلکہ ان میں مستقبل کیلئے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ معاشی اصلاحات کو صرف دعوئوں تک محدود رکھا گیا ہے اور عملی اقدامات میں شفافیت کی کمی واضح ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر اور افراط زر کے سنگین مسائل کے باوجود حکومت کی توجہ صرف انتخابی سیاست پر مرکوز رہی ہے۔ نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے بجائے حکومتی اقدامات نے مزید غیر یقینی کی کیفیت پیدا کی ہے۔ایسے میں حکومت کو اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے زبانی دعوئوں سے نکل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔نیزمالیاتی اصلاحات کے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ صارفین کے اخراجات کو بڑھانے کیلئے ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانابھی ناگزیر ہے۔

ہندوستانی معیشت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر، افراط زر کی بلند شرح اور معیشت کی سست رفتار ترقی ایسے مسائل ہیں جنہیں صرف مؤثر اور جامع پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے داخلی مسائل کا حل تلاش کرے اور معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ اس کے بغیر ترقی کے وعدے محض خواب ہی رہ جائیں گے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS