سفیر کسی ملک یا علاقے کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کا موقف اس کے ملک یا علاقے کا ہی موقف ہوتا ہے، چنانچہ ہندوستان میں فلسطین کے سفیر عدنان ابوالہیجاء بھی، جو خود کو مرد مجاہد کہتے ہیں، فلسطین اور فلسطینیوں کے ترجمان ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان ، اسرائیل اور فلسطین دونوں کا دوست ہے۔ ہندوستان ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔ مسئلۂ فلسطین کو سلجھانے میں اسے ایک مثبت رول ادا کرنا چاہیے، البتہ امریکہ کے بارے میں عدنان ابوالہیجاء کا کہنا ہے کہ اسرائیل، امریکہ کے لیے ایک فوجی اڈے کی طرح ہے۔ اگر اسرائیل نہیں ہوتا تو مشرق وسطی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکہ ایک نیا اسرائیل بنا تا۔ فلسطینی سفیر عدنان ابوالہیجاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اگر جائز حقوق نہ دیے گئے تو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں یہ جنگ آخری جنگ ہوگی۔ نئی دہلی میں واقع فلسطینی سفارتخانے میں فلسطینی سفیر، عدنان ابوالہیجاء سے روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر، عبدالماجد نظامی نے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
حماس کے حملے کے فوراً بعد ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹ کیا۔ پھر چند دنوں بعد ہندوستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا۔ اس ٹوئٹ اور بیان کے سلسلے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
ہندوستان کے وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے بیان آیا تھا۔ غزہ میں الاہلی اسپتال پر حملے کے بعد ہندوستانی وزیراعظم نے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی بات کی ہے۔ ہندوستان، اسرائیل اور فلسطین دونوں کا دوست ہے۔ ہندوستان ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔ مسئلۂ فلسطینی کو سلجھانے میں اسے ایک مثبت رول ادا کرنا چاہیے۔ میں یہ بات پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ مغربی ایشیا میں مستقل امن کے لیے ہندوستان کو ایک اہم رول ادا کرنا چاہیے۔ یہ خطہ ہندوستان کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ وہاں مستقل اور پائیدار امن کا قیام ہندوستان کے بھی مفاد میں ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ بندی ہو۔ 22 لاکھ لوگ غزہ میں رہتے ہیں۔ ان تک جتنی جلد ممکن ہو، امداد پہنچے، خاص کر کھانا، پانی پہنچے۔ دواپہنچے۔ بجلی کی سپلائی بحال ہو۔ بحالی امن کا عمل شروع ہو۔ اسی لیے ہم جلد از جلد جنگ بندی چاہتے ہیںمگر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور یوروپی ممالک، مثلاً برطانیہ اور فرانس نے اقوام متحدہ میں کیا کیا۔ ان کے عمل سے یہی لگتا ہے کہ وہ جنگ ختم ہونے دینا نہیں چاہتے مگر فلسطینیوں کو اگر جائز حقوق نہ دیے گئے تو مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں یہ جنگ آخری جنگ ہوگی۔
کیا تمام فلسطینی متحد ہیں؟ کیا مغربی کنارہ کے فلسطینی غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں؟
تمام فلسطینی متحد ہیں۔ فلسطینیوں کا موقف واضح ہے کہ اسرائیل حماس کا ہی نہیں، تمام فلسطینیوں کا دشمن ہے۔ حماس، الفتح ، جہاد کا ہی نہیں، اسے تمام فلسطینیوں کا وجود پسند نہیں۔ اسے فلسطین کا ہی وجود پسند نہیں ہے۔ غزہ کے معاملے میں تمام فلسطینی متحد ہیں۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ حماس کے پیچھے اسرائیل ہے؟
یہ سچ نہیں ہے۔ غلط ہے۔
کیا نکبہ دہرایا جا رہا ہے، یہ دوسرا نکبہ ہے؟
بہت اہم سوال کیا آپ نے ۔ دراصل فلسطینیوں نے دوغلطی کی ہے۔ پہلی 1948 میں اور دوسری 1967 میں۔ ان دونوں ہی جنگوں میں وہ مہاجر بنے۔ دوسری جگہوں پر انہیں جانا پڑا۔ 1948 سے اب تک اسرائیل 56 سے زیادہ قتل عام کرچکا ہے۔ 1982 میں صبرا و شاتیلا قتل عام کی مثال ہی دیکھ لیجیے کہ کیسے انجام دیا گیا۔ غزہ جنگ میں فلسطینی مصائب سے گزر رہے ہیں، دشواریوں سے نبرد آزما ہیں لیکن عام دنوں میں بھی فلسطینیوں کے حالات اچھے نہیں رہتے، کیونکہ اسرائیل عام دنوں میں بھی عام فلسطینیوں پر حملے کرتا رہتا ہے۔ انہیں مارتا ہے۔ یہ مسلسل قتل عام ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینی مصر چلے جائیں۔ فلسطینی غزہ اور مغربی کنارے کو خالی کر دیں۔ جو ہو رہا ہے، قاتل بائیڈن نے اس کی منظوری دی ہے۔
یعنی مسئلۂ فلسطین پر امریکہ کا دہرا معیار ہے؟
اسرائیل کا مالک امریکہ ہے۔ امریکہ کے لیے وہ ایک ملٹری بیس ہے۔ عام یہودی بھی عام فلسطینیوں کی طرح مظلوم ہیں۔ پوری آزادی سے زندگی نہیں جی پارہے ہیں۔ وہ محفوظ نہیں اور اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ فلسطینیوں کو جائز حقوق نہیں ملیں گے۔ اسرائیل میں ہر جگہ فوج ہے، فوجی چیک پوسٹیں ہیں، یہودیوں کو جگہ جگہ چیک کرانا ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہاکہ امریکہ کے لیے اسرائیل ایک ملٹری بیس ہے۔ بائیڈن کا خود کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نہیں ہوتا تو اس خطے میں اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے امریکہ ایک نیا اسرائیل بناتا۔ ذرا سوچئے، اگر اسرائیل نہیں ہوتا تو مشرق وسطیٰ میں کوئی جنگ ہوتی؟
کیا عربوں کی غلطی کی وجہ سے بھی ارض فلسطین پر اسرائیل کی تشکیل ممکن ہو سکی ہے؟
اس وقت عرب بہت کمزور تھے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقوں کو دیکھیں تو کئی جگہ فرانس کا قبضہ تھا، کئی جگہ برطانیہ کا۔ شمالی افریقہ میں الجزائر ، تیونس، لیبیا فرانس کی کالونی تھے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ میں ہو گیا تھا۔ برطانیہ نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ ارض فلسطین پر وہ ان کی ریاست بنائے گا۔ اس سلسلے میں اعلان بالفور کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ بعد میں برطانیہ کے ساتھ بیشتر مغربی ملکوں نے اسرائیل کی تشکیل کی حمایت کی اور آج بھی وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔
کیا دو ریاستوں یعنی اسرائیل کے ساتھ فلسطین کے ملک بن جانے سے اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے؟
ہم نے دو ریاستی حل پر اتفاق کیا تھا۔ اسی لیے اوسلو معاہدہ کیا تھا لیکن اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نقشہ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ یہ دیکھ لیجیے کہ اوسلو معاہدہ کی رو سے فلسطینیوں کے پاس کتنی زمین ہونی چاہیے تھی اور آج ان کے پاس کتنی زمین ہے، آپ کو حالات کا اندازہ ہو جائے گا۔ حالت یہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی تعمیرات کے لیے خود اپنا گھر اپنے ہی ہاتھوں فلسطینیوں کو مسمار کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر آتے ہیں تو اس کے لیے انہیں زیادہ رقم دینی پڑتی ہے۔ اسرائیل ان کے گھروںکی جگہوں پر بڑی بڑی عمارتیں بناتا ہے۔ فلسطینی کچھ نہ بھی کریں تب بھی کسی الزام میں 4-6 مہینے کی جیل کی سزا انہیں سنا دی جاتی ہے۔ پھر یہ سزا بڑھتی رہتی ہے۔ وہاں فلسطینیوں کو عمر قید کی سزا عام بات ہے۔ ایک فلسطینی کو ایک نہیں، دو نہیں، تین یا چار عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔
مطلب 400 سال کی سزا ۔ اسرائیل کی جیلوں میں 5000 سے زیادہ فلسطینی قیدی ہیں۔ ان میں 160 بچے اور 20 خواتین ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک بھی فلسطینی نہ رہیں، تمام فلسطینی ارض فلسطین کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ حملے اسی لیے وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہماری لڑائی عام یہودیوں سے نہیں، صہیونیوں سے ہے۔ عام یہودی بھی عام فلسطینیوں کی طرح مظلوم ہیں۔ ہم دنیا کے کسی بھی عام یہودی کے خلاف نہیں ہیں۔
یہ خبر آئی تھی کہ طالبان فلسطینیوں کی مدد کے لیے جانا چاہتے ہیں؟
فلسطین آدمی نہیں، جنگجو ہیں لیکن وہ امن چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر بچوں کی طرح ان کے بچے بھی پر امن زندگی بسر کریں لیکن ہماراخون ہمارے تشخص کے سامنے بہت سستا ہے۔ ہم اپنی حفاظت خود کر سکتے ہیں، البتہ ہم سیاسی حمایت اوراقتصادی امداد چاہتے ہیں۔ دنیا میں جو ممالک خود کو مہذب جمہوریہ کہتے ہیں ، وہ کریمنلائزڈ ہیں۔ وہ فلسطینیوں کا قتل عام دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
آخر آپ مسئلۂ فلسطین کا حل کس طرح سے نکالنا چاہتے ہیں؟
پر امن طریقے سے۔ ہمارا یقین پر امن جدوجہد میںہے۔ ہم سے پہلے ہندوستان میں مسٹر گاندھی نے ایسا کیا ہے، جنوبی افریقہ میں ایسا کیا گیا ہے۔ ہم بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں، پرامن جدوجہد سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل ہماری پر امن جدوجہد کو کامیاب نہیں ہونے دے رہا ہے۔ اس کے لیے عالمی برادری بھی ذمہ دار ہے۔ مسئلۂ فلسطین پر اقوام متحدہ میں 800 قرار داد یں پیش کی گئی ہیں لیکن کسی بھی قرار داد کو نافذ کرنے سے اسرائیل صاف منع کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ امریکہ کا اسرائیل کی پشت پر ہونا ہے اور امریکہ کے لیے اسرائیل ایک ملٹری بیس ہے۔