کون بنے گا برطانیہ کا وزیراعظم؟ اس سوال کی لفظی ترتیب میں نے جان بوجھ ایسی رکھی ہے کہ یہ ’کون بنے گا کروڑپتی‘ کی طرز پر گونجے، کیوں کہ صرف برطانیہ کی سیاست کے لیے ہی نہیں، یہ سوال پوری دنیا کے لیے کروڑوں کا سوال بن گیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ لگتا ہے کہ جواب اکتوبر تک ملے گا جو نئے وزیراعظم کی تقرری کی ڈیڈلائن ہے، لیکن جس طرح بورس جانس کی رخصتی ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کافی مشکل لگتا ہے کہ نئے جانشین کے لیے برطانیہ اتنے طویل انتظار کے لیے تیار ہوگا۔ بلکہ برطانیہ کو جلد ہی کسی متبادل نظم کی ضرورت ہے، کیوں کہ ریاست کے کئی سینئر افسران نے یا تو استعفیٰ دے دیا ہے، یا انہیں برخاست کردیا گیا ہے یا انہوں نے جانسن پر عدم اعتماد کا اشارہ دیا ہے۔ حکومت ایک ٹیم کی طرح ہوتی ہے جو سٹیک احکامات اور واضح قیادت کی بنیاد پر چلتی ہے۔ برطانیہ میں یہ دونوں بنیادیں بکھری ہوئی ہیں اور ملک کو ایک نئی قیادت کی جلد ضرورت ہے۔
برطانیہ کی ’خوش قسمتی‘ سے وزیراعظم کی کرسی کے دعویداروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ہمارے لحاظ سے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان میں کئی ہندنژاد بھی شامل ہیں۔ جانسن کے استعفیٰ کے محض تین دن کے اندر ہی ان کے متبادل کے طور پر تین ہند نژاد کے نام سامنے آگئے ہیں- رشی سُنک، پریتی پٹیل اور سوئلا بریورمین۔ رشی سُنک جانسن حکومت میں وزیرمالیات تھے جبکہ پریتی پٹیل ہوم سکریٹری(جو ہمارے وزیرداخلہ کے عہدہ کے مساوی ہوتا ہے) اور سوئلا اٹارنی جنرل ہیں۔ ان کے علاوہ وزیرمملکت برائے تجارت پینی مورڈانٹ اور ڈیفنس سکریٹری بین والیس بھی دعویداروں کی دوڑ میں ہیں۔ ایک دیگر نام پاکستان نژاد ساجد جاوید کا ہے جو سابقہ حکومت میں وزیرصحت تھے لیکن ابھی تک انہوں نے خود اپنی طرف سے کوئی دعویداری پیش نہیں کی ہے۔
ان تمام ناموں میں رشی سُنک کی دعویداری سب سے مضبوط سمجھی جارہی ہے۔ سُنک انفوسس کے بانی نارائن مورتی کے داماد ہیں اور ان کے استعفیٰ کو ہی جانسن حکومت کے تابوت میں آخری کیل سمجھا جارہا ہے۔ سُنک کے استعفیٰ دینے کے بعد ساجد جاوید سمیت 50سے زیادہ دیگروزیر اور افسر حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔
برطانیہ کی پارلیمانی روایت کے مطابق سُنک نے جمعہ کو وزارت عظمیٰ کے لیے اپنی دعویداری بھی پیش کردی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق اپنی مہم کے لیے سُنک نے لندن میں پارلیمنٹ کے پاس ہی کے ایک ہوٹل میں عارضی دفتر قائم کیا ہے۔ کئی کنزرویٹو ممبران پارلیمنٹ ابھی سے سُنک کی حمایت میں ہیں کیوں کہ ایک تو وہ سبھی ممبران پارلیمنٹ میں سب سے اہل ہیں، دوسرا بریکزٹ کے مدنظر برطانیہ کے بڑھتے معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے سب سے اہل امیدوار بھی ہیں۔ لندن کی اوپینین پول ایجنسی پولنگ فرم جے ایل پارٹنرس کا کہنا ہے کہ 2,000لوگوں کے سروے میں سُنک عوام کی پسند میں بھی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کا سٹّابازار بھی سُنک کو سب سے آگے بتارہا ہے۔ ریس میں سُنک کے سب سے آگے ہونے کا اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ حزب اختلاف کے زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ انہی پر نشانہ لگارہے ہیں۔
سُنک کے لیے یہ ایک بڑی واپسی ہے کیوں کہ ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں اپنی بیوی اکشتا مورتی کی جائیداد اور ان کے ٹیکس بلوں کو کم کرنے کے لیے این آر آئی کے دعوے کے تنازع کے سبب برطانیہ کی سیاست سے باہر نکلنے کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ انفوسس کے شیئروں کا ایک بڑا حصہ رکھنے والی اکشتا کی کل جائیداد کا تازہ تخمینہ تقریباً700ملین پاؤنڈ ہے۔سُنک کے علاوہ بھی برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کی دوڑ جنوبی ایشیائی چہروں سے بھری ہوئی ہے جن میں پریتی پٹیل، سوئلا بریورمین اور پاکستان کے ساجد جاوید شامل ہیں۔ جاوید نے فی الحال دعویداری کے کوئی تو اشارے نہیں دیے ہیں، لیکن گوا میں پیدا ہوئی سوئلا نے واضح کردیا ہے کہ وہ بھی دوڑ میں ہیں۔ 42سال کی سوئلا اٹارنی جنرل ہیں اور بریکزٹ حامی ہیں لیکن لگتا نہیں کہ وہ ریس میں زیادہ دور تک جاپائیں گی۔ پریتی پٹیل ہوم سکریٹری ہیں جو ہمارے وزیرداخلہ کے مساوی عہدہ ہوتا ہے۔ پریتی کی پہچان شدت پسند کے طور پر سمجھی جاتی رہی ہے اور یہی بات انہیں برطانوی عوام کے درمیان غیرمقبول بھی بناتی ہے جس کی وجہ سے وہ فی الحال کمزور دعویدار نظر آرہی ہیں۔
سُنک کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ وہ 2015میں پہلی مرتبہ رِچمنڈ سے ممبرپارلیمنٹ بنے اور صرف پانچ سال میں ہی کابینی وزیر بن گئے۔ اس رفتار کو قائم رکھتے ہوئے اگلے کچھ مہینوں میں اگر وہ برطانیہ کی سب سے اونچی کرسی تک پہنچ بھی جاتے ہیں تو ان کا آگے کا سفر انتہائی چیلنجنگ رہنے والا ہے۔ اس کی وجہ ہے جانسن سے ملنے جارہی سیاسی وراثت جس میں نہ صرف گزشتہ تین سال میں کئی داغ لگے ہیں، بلکہ بریکزٹ کے بعد وہ معاشی بدحالی کی بھی شکار ہے۔
ایسی صورت حال کیوں بنی، اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں اور ناکامیاں بھی سیاسی کے بجائے ذاتی زیادہ ہیں۔ جانسن کی کرسی گزشتہ ماہ سے ڈانواڈول ہورہی تھی۔ جون میں 41فیصد ممبران پارلیمنٹ نے ووٹ کے ذریعہ ان کی قیادت میں عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ویسے بغاوت کے اشارے اور بھی پہلے ملنے لگے تھے۔ گزشتہ سال کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران ڈاؤننگ اسٹریٹ میں یوم پیدائش کے جشن کے بدلے میں پولیس نے بطور وزیراعظم جانسن پر جرمانہ عائد کیا تھا۔ برطانیہ کی سیاست میں یہ واقعہ پارٹی گیٹ اسکینڈل کے نام سے بدنام ہوچکا ہے۔ جنسی زیادتی کے ملزم ارکان پارلیمنٹ کے سبب بھی جانسن کو شرمندگی جھیلنی پڑی۔ ان میں سے ایک عمران احمد خان نام کے ممبرپارلیمنٹ تھے جنہیں 15سال کے لڑکے کے جنسی استحصال کا قصوروار پایا گیا، جب کہ نال پیرش نام کے ایک دیگر کنزرویٹو ممبرپارلیمنٹ کو ہاؤس آف کامنس میں اپنے فون پر دوبار پورن فلم دیکھنے کے اعتراف کے بعد پارلیمنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ بعد میں جب دونو ںکی خالی سیٹ پر ضمنی انتخاب ہوئے تو کنزرویٹو پارٹی کا کھاتہ بھی نہیں کھل پایا۔ اس سے بھی جانسن کی اخلاقی طاقت کم ہوئی۔ لیکن تختہ پلٹ کی فوری وجہ بنی کرسٹوفر پنچر کو لے کر جانسن کا جھوٹ جس کی پول کھولی ایک سینئر سابق سرکاری ملازم نے۔ اس ملازم نے الزام لگایا کہ جانسن کے دفتر نے رکن پارلیمنٹ کرسٹوفر پنچر کے خلاف گزشتہ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ فروری میں ہی جانسن نے پنچر کو ڈپٹی چیف وہپ مقرر کیا تھا۔ غلطی قبول کرلینے پر جب پنچر کو گزشتہ ہفتہ پارٹی سے معطل کیا گیا تو جانسن کا دفتر دعویٰ کررہا تھا کہ وزیراعظم پنچر کے خلاف سابقہ الزامات سے وہ انجان تھے۔ لیکن اس سابق ملازم نے خط لکھ کر جانسن کابھانڈا پھوڑ دیا کہ انہیں 2019میں ہی پنچر کی ’کارگزاری‘ کے بارے میں آگاہ کرادیا گیا تھا۔ ان سب نے وبا اور روس-یوکرین بحران سے نمٹنے میں ایک عالمی رہنما کی شبیہ بنانے کی جانسن کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
تین سال قبل جانسن نے تھیچر جیسا کرشمہ دکھاتے ہوئے کنزرویٹو پارٹی کو 80سیٹوں کی اکثریت دلائی تھی۔ تب انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اتنی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد ان کا زوال اتنی تیزی سے ہوجائے گا۔ یہ تو بالکل ہی نہیں سوچا ہوگا کہ جمعہ-جمعہ چار دن پہلے وزیر بنے ممبران پارلیمنٹ ہی ان کے خلاف پرزور انداز میں استعفیٰ مانگیں گے۔ لیکن جانسن جس طرح کی سیاست کررہے تھے، اس کا مقدر شاید یہی ہونا تھا۔ بہرحال برطانیہ ایک ایسے طے شدہ حالا ت کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں تاریخ نئی کروٹ لیتی نظر آرہی ہے۔ اگر سب کچھ اندازوں کے مطابق رہا تو اگلے کچھ ماہ میں ہم ایک ہندنژاد کو اس ملک کی کمان تھامے دیکھ سکتے ہیں جس نے ہم پر کبھی 200سال تک حکمرانی کی تھی۔ یہ بھی شایدتقدیر کا حصہ ہی ہوگا غلامی کے ’زہر‘ کا جز آزادی کے امرت کال میں دور ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
برطانیہ میں بھارت ’راج‘، رشی کے سر تاج؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS