ہندوستان کو ادا کرنا ہوگا،موسمیاتی تبدیلی پر قائدانہ رول

0

انوراگ مشر

6 نومبر سے مصر سے شرم الشیخ میں منعقدہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی پر اجلاس سی اوپی27کی تھیم حکومت ہند کی عالمی پہل ’لائف اسٹائل فار دی انوائرمنٹ‘ کا منتخب کیا جانا، عالمی اسٹیجوں پر ہندوستان کے بڑھتے اثرات کی علامت ہے۔ درحقیقت موسمیاتی تبدیلی کی چنوتیوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کے 5 ’امرت تتو‘ کے اصول نے پوری دنیا کو متوجہ کیا ہے جس کے تحت ہندوستان 2030 تک اپنی غیرفاسل توانائی کی صلاحیت 500 گیگاواٹ تک پہنچائے گا، اپنی 50 فیصد تک کی توانائی کی ضرورت قابل تجدید توانائی سے پوری کرے گا، اندازے کے مطابق، ملک کے کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ایک ارب ٹن کی کمی لائے گا، اپنی اقتصادیات کی کاربن اِنٹینسٹی کو 45 فیصد سے بھی کم سطح پر لائے گا اور 2070 تک نیٹ زیرو کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا ہدف حاصل کرے گا۔ دراصل گزشتہ سال نومبر میں گلاسکو میں منعقدہ کوپ 26 کے اجلاس میں حکومت ہند کا موقف رکھتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہاتھا ، ’میں آپ کے سامنے ایک وَن ورڈ موومنٹ کی تجویز رکھتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا تھا، ’یہ ایک لفظ ہے ایل آئی ایف ای (لائف) یعنی لائف اسٹائل فار دی انوائرمنٹ۔‘ اصل میں دنیا کی آبادی کا 17 فیصد حصہ رکھنے کے باوجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ہندوستان کی حصے داری صرف 5 فیصد ہے۔ اسی لیے عالمی سطح پر ہندوستان کی دھاک جمی ہے مگر اس کامیابی پر زیادہ خوش ہونے کے بجائے محتاط رہتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے مسئلے پر ترقی یافتہ ملکوں کے رویے کو پرکھناہوگا۔
ہندوستان ترقی پذیر ملکوں کا موقف رکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے ذریعے کیے جانے والے کاموں کے تناظر میں موسمیاتی یکسانیت پر بھی زور دے رہاہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھنے والے کلائمٹ اِکوٹی مانیٹر کے مطابق، امریکہ، روس اور آسٹریلیا کے علاوہ زیادہ تر یوروپی ملکوں نے عالمی کاربن بجٹ کے اپنے مناسب حصے سے زیادہ خرچ کر لیا ہے جبکہ ہندوستان، چین کے علاوہ براعظم افریقہ اورجنوبی امریکہ کے ملکوں نے اپنے مناسب حصے سے کم کھپت کی ہے۔ اس کے باوجود این ڈی سی سنتھیسس رپورٹ میں دیکھا گیا کہ ترقی یافتہ ملکوں نے 2050 تک نیٹ زیرو کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا ہدف طے کیا ہے مگر ان کی یہ کوشش اخراج میں سو فیصد کی کمی نہیں لارہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کا زیادہ بوجھ ترقی پذیر ملکوں کے سرڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ زیرو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا مطلب ہے کہ ایک ملک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جاری رکھ سکتا ہے۔ اگر وہ دوسرے ملکوں سے کاربن کریڈٹ کرے اور خود کو نیٹ زیرو اخراج کی پوزیشن میں دکھائے۔
اس طرح کے اپائے کچھ ترقی پذیر ملکوں کے لیے فائدے مند ہوسکتے ہیں لیکن عالمی سطح پر یہ مفید نہیں۔ ہونا تویہ چاہیے کہ ترقی پذیرملکوں کو 2030 تک زیرو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ہدف حاصل کرنا چاہیے، ورنہ وہ کاربن اسپیس پر قبضہ کرتے رہیں گے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کاربن اسپیس سے باہر ہوجائیں گے اور آنے والے برسوں میں کوئی کاربن اسپیس نہیں ہوگا۔ ان سب سے بچنے کے لیے ہندوستان کو ساجھا لیکن الگ الگ ذمہ داری کے اصول کا پابند رہتے ہوئے ترقی پذیر ملکوں کو کاربن کے اخراج میں بھاری کمی لانے کی سمت میں پہلا قدم اٹھانے کے لیے تحریک دیتے ہوئے ان کے پچھلے اخراج کی وجہ سے ہوئے ماحولیاتی نقصان کے لیے ترقی یافتہ ملکوں پر ادائیگی کے لیے نقصان کی تلافی کا دباؤ ڈالنا ہوگا۔ حالانکہ ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ عالمی قیادت کا دم بھرنے والے ترقی یافتہ ملکوں کے لیڈروں نے اپنے عزم اور اپنی تقریروں میں بے شرمی سے یہ بات قبول کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت کے باوجود دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ملکوں نے ابھی تک ان وعدوں کو پورا نہیں کیا جن سے صدی کے آخر تک درجۂ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ سے کم رکھا جا سکے۔ مثال کے طور پر یو این ایف سی سی کے ذریعے پیش کردہ اقتصادیات کے دوسالہ تجزیے کے مطابق، ترقی یافتہ ملکوں سے ترقی پذیر ملکوں میں دولت کا فطری بہاؤ صرف 38 ارب ڈالر ہے، وہ بھی یواین ایف سی سی کے ذریعے اپنائے گئے پیمانوں کے باوجود۔اس کے علاوہ گرین کلائمٹیڈ فنڈ (جی سی ایف) جیسے ماحولیاتی فنڈ کے لیے رقم کا فطری بہاؤ بہت کم ہے اور اسی کی وجہ سے عالمی بینک اور اس طرح کے دیگر اداروں کے توسط سے سارے فنڈ کو ماحولیاتی فنڈ کی شکل میں مختص کیا جانا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پر اصلاح کا پرچم سنبھالنے کے لیے ہندوستان کو یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ زیرو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر عزم کا اظہار کرنے کے لیے صرف جدید توانائی کی حصہ داری بڑھانا ترقی یافتہ ملکوں کے تقابل میں کافی نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے سبھی ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اپنے کاموں میں تیزی لانی ہوگی۔ ہندوستان کو ترقی یافتہ ملکوں کو سمجھانا ہوگا کہ انہیں موسمیاتی فنڈ کے معاملے میں بھی زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حد سے زیادہ کاربن خارج کرچکے ترقی یافتہ ملکوں کو سمجھانا ہوگا کہ ترقی پذیر ملکوں میں صاف توانائی یقینی بنانے کے لیے کے لیے بھی انہیں فنڈ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے ان ملکوں کو دی جانے والی رقم کو بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو پہلے سے ہی موسمیاتی تبدیلی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور مستقبل میں بدتر حالات کا سامنا کریں گے لیکن ہمیں ذہن نشیں رکھنا ہوگا کہ ملکوں کے مابین بہتر ساجھے داری کا دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی یکسانیت کے بارے میں بات کرتے وقت ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ وابستگی بے حد اہم ہے۔
وقت آگیا ہے کہ سبھی ممالک اپنی اقتصادیات اور ٹیکس کے نظام پر گہری نظرڈالیں اوراسے ایک ایسے نظام میں تبدیل کریں جو ہر لحاظ سے زیادہ متوازن ہو۔ اب سبھی ملکوں کو ایک ساتھ کام کرنے اور بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہندوستان قیادت کرنے والے ملک کی شکل میں صرف اس لیے آگے نہیں آ رہاہے، کیونکہ اس نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سخت موقف اپنایا ہے بلکہ اس لیے آ رہا ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کی ایجاد اور کم لاگت والے طریقے تلاش کرنے کے معاملے میں اول ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے کاربن کے اخراج کی شرح سے متعلق تاریخی ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے اس کا ردعمل ترقی یافتہ ملکوں کے تقابل میں کافی بہتر ہے۔
(مضمون نگار اٹل جن سمواد اِیوم سیوا سنستھان کے سربرا ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS