خواجہ عبدالمنتقم
وزارت قانون کے ذریعہ بھارت کے آئین کے انگریزی زبان میں شائع کیے گئے متن کے حصہ 1 میں ’یونین اور اس کا علاقہ‘ عنوان کے تحت دفعہ1 میں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے، وہ ہیںIndia, that is Bharat۔ آئین کے وزارت قانون کے ذریعہ ہی شائع کیے گئے ہندی ترجمہ میں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے، وہ ہیں ’ بھارت ارتھات انڈیا‘۔ انگریزی زبان میں شائع کیا گیا متن قانونی اعتبار سے آئین کا مستند متن ہے اور اس کے ہندی ترجمہ کو بھی آئین کی دفعہ 394A کے تحت مستند متن کا درجہ حاصل ہے۔ اس دفعہ کی عبارت درج ذیل ہے:
394الف-ہندی زبان میں مستند متن:(1)صدر۔ (الف) اس آئین کے ہندی زبان میں ترجمہ کو، جس پر آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے دستخط کیے تھے، ایسی تبدیلیوں کے ساتھ جو اسے مرکزی قوانین کے ہندی زبان میںمستند متن میں اپنائی گئی زبان، طریقہ کار اور اصطلاحات کے مطابق بنانے کے لیے ضروری ہیں اور ایسی اشاعت سے قبل کی گئی اس آئین کی سبھی ترمیمات کو اس میں شامل کرتے ہوئے۔
(ب) انگریزی زبان میں کی گئی اس آئین کی ہرتر میم کے ہندی زبان میں ترجمہ کو اپنے اختیار کے تحت شائع کرائیں گے۔
(2) فقرہ (1) کے تحت شائع اس آئین اور اس کی ہر ایک ترمیم کے ترجمہ کے وہی معنی ہوں گے جو اس کے اصل کے ہیں اور اگر ایسے ترجمہ کے کسی حصہ کے معنی اس طرح لگانے میں کوئی دشواری آتی ہے تو صدر اس کی مناسب طریقہ سے نظر ثانی کرائیں گے۔
(3) اس آئین اور اس کی ہر ترمیم کا اس دفعہ کے تحت شائع کیا گیا ترجمہ سبھی اغراض کے لیے اس کا ہندی زبان میں مستند متن سمجھا جائے گا۔
آئین کے اردو ترجمہ میں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے وہ ہیں ’ ہند یعنی بھارت‘۔آئین کے اردو ترجمہ کو تا ہنوز کسی بھی قانون کے تحت مستند متن کا درجہ حاصل نہیں ہے۔
انڈیا، بھارت،ہند، ہندوستان یہ سب نام ہی ہمیں عزیز ہیں۔ ہمارا ادب ان الفاظ سے بھرا پڑا ہے۔چکبست نے کہا تھا ’کانٹے عزیز گلشن ہندوستاں کے ہیں‘ ہماری افواج کے ذریعہ ‘ اقبال کا ترانہ ’ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا‘ کا گایا جانا اس نام کے تقدس کا اس سے بہتر ثبوت کیا ہوسکتا ہے۔ اب رہی بات لفظ انڈیا کی، یہ یقینی طور پر انگریزی زبان کالفظ ہے لیکن اگر اسے صرف اس بنیاد پر ختم کیا جاتا ہے کہ یہ غلامی کی نشانی ہے تو ایسی نشانیوں کی اتنی طویل فہرست ہے کہ ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا شہد کی مکھیوں کے چھتے میںہاتھ ڈالنے سے کم نہ ہوگا۔ ریل، ریلوے اسٹیشن، پلیٹ فارم، بیمہ پالیسی، فون، فون نمبر، پنکچر، ہیرو، ہیروئن، کلاس، اسکول، بنڈل،پارسل،اسپیڈ پوسٹ، میک ان انڈیا۔اس کے علاوہ تمام دستاویزات اور اداروں میں سے انڈیا لفظ ہٹانا آسان کام نہیں لیکن اگرحکومت چاہے اور عوام بھی اس کی اس کوشش اور عمل کو سراہیں تو دشوار سے دشوار کام بھی ہوسکتا ہے۔ جب ایک رات میں نوٹ بندی کا فیصلہ ہو سکتا ہے، ایک جھٹکے میں دفعہ370 ختم ہو سکتی ہے اور تین طلاق سے متعلق قانون بن سکتا ہے تو کسی بھی فیصلہ کو عملی جامہ پہنانا حکومت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ لفظ انڈیا کے ساتھ معمولی یا محدود پیمانے پر چھیڑ چھاڑ تو ممکن ہے لیکن اس سے مکمل طور پر نجات پاناآسان نہیں۔
ابھی قانون نہیں بنا ہے۔ قبل از وقت ہنگامہ آرائی مناسب نہیں لیکن ایسے معاملات میں ارباب حکومت کو گوش گزار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ویسے بھی وضع قانون ایک ہفت خواں ہے، یعنی رستم کی سات مہمیں، جسے طے کرنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایسی ایسی کٹھن منزلوںسے گزرنا پڑتا ہے کہ اگر ان کی بھول بھلیوں میں قافلے بھی بھٹک جائیں تو تعجب نہیں۔ آئیے اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہ منزلیں کون کون سی ہیں۔ قانون وضع کرنے کے لیے کیبنٹ کو مجوزہ قانون سے متعلق تمام پیچیدگیوں پر غور کرنا پڑتا ہے اور اس بات کا پورا پورا دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ قانون کی شکل ایسی ہونی چاہیے جو ملک کے تمام لوگوں کو بلا حیل وحجت یا بنا ان کے جذبات مجروح ہوئے، قابل قبول ہو اور اس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور جو دشواریاں درپیش ہیں وہ دور ہوسکیں۔ کیبنٹ کی منظوری کے بعد متعلقہ وزارت بھی ان تمام پیچیدگیوں پر غور کرتی ہے اور ایک واضح تجویز وزارت قانون کو بھیجتی ہے۔ وزارت قانون میں واضع قانون (Legislative Counsel) کو، قانون وضع کرتے وقت بہت سی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے جیسے قانون وضع کرنے کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں، انہیں ٹھیک سے سمجھنا،ان کا تجزیہ کرنا، دستیاب یا حاصل کردہ امدادی مواد کی مدد سے مسودہ (ڈرافٹ) تیار کرنا، ڈرافٹ تیار کرنے کے بعد اسے حتمی شکل دینے سے قبل اس کی باریکی سے جانچ پڑتال کرنا وغیرہ۔ مسودہ تیار کرنے والے افسرکی حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ ملک وعوام کے سامنے ایک ایسا قانون رکھا جائے جس میں کوئی خامیاں نہ ہوں، لیکن غلطی کرنا انسانی فطرت ہے واضع قانون، قانون وضع کرنے کے بعد اس کو ایک بل کی شکل دیتا ہے اور وہ بل ایک جمہوری حکومت میں ہمارے ملک کی طرح پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے۔ وہاں پر مکمل بحث کی جاتی ہے، بل کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بل تکنیکی نوعیت کا ہے، جس کے مثبت اور منفی اثرات پر غور کرنا اشد ضروری ہے تو ایسے بل مختلف پارلیمانی کمیٹیوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں، جو اس کے تمام پہلوؤں پر غور وخوض کرنے کے بعد اپنی رپورٹ دیتی ہیں۔ پھر ان رپورٹوں پر تفصیلی بحث ہوتی ہے اور اس بحث کے بعد اگر کچھ ترامیم ضروری ہوں تو وہ ترامیم کی جاتی ہیں۔ بعدازاں ان ترامیم کو اس بل میں حسب ضرورت شامل یا نہ شامل کرکے ایوان کے ذریعہ پاس کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ بل راشٹرپتی کو، ان کی منظوری کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ راشٹرپتی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس بل میں کچھ کمیاں ہیں یا قابل اعتراض باتیں ہیں تو وہ بل واپس بھیج سکتے ہیں۔ ایوان اس پر دوبارہ غور کرتا ہے اور آئین کے مطابق کارروائی کرکے دوبارہ بغرض منظوری راشٹرپتی کو بھیج دیتا ہے۔
اب رہی نیک نیتی سے کسی ملک، اس کے کسی شہر یا کسی دیہات کا نام بدلنے کی تو یہ کوئی نئی بات نہیں، کتنے ہی ممالک ہیں جنہوں نے اپنے ملک اور شہروں وغیرہ کے نام بدلے ہیں۔ترکی ترکیہ،سیلون سری لنکا،برما میانمار،سیام تھائی لینڈ ،ہالینڈ نیدرلینڈ، چیک ری پبلک چیک اور سوازی لینڈ اسواتینی ہو گیا، مگر یاد رہے کہ ا گر کوئی قانون جلد بازی میں بنایا جاتا ہے تو اس میں بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں اور وہ عدالتوں کے ذریعہ کی گئی تعبیر کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔ ایسے کئی قوانین ہیں جن کی خامیوں کا ایوان میں کافی چرچا ہوا۔ قانونی خدمات ایکٹ، ان مثالوں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آدھی مقدمے بازی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ قانون وضع کرنے والے قانون کو ٹھیک سے وضع نہیں کرتے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]