ڈاکٹر خالد اختر علیگ
ہندوستان ہی دنیا میں واحد ملک ہے ،جس نے دنیا کی قدیم طب یعنی طب یونانی کو عالمی منظر نامہ پر لانے میں نمایاں کردا ر ادا کیا ہے ،طب یونانی ایک قدیم طب اور طریقہ علاج ہے جس کے تانے بانے ہزاروں سال قبل کے مصر، میسوپوٹامیا اور یونا ن سے ملتے ہیں، اہل یونان نے باضابطہ طور پر اسے مدون کیا اور عربوں نے اس طب کو عملی طورپر تجربات کے مختلف مراحل سے گزارا اور نئے نظریات اور مختلف اعمال پیش کیے۔ ہندوستان میں طب یونانی کو تقریباً ایک ہزار سال قبل مسلمانوں نے متعارف کروایا تھا، ہندوستان میں آباد ہونے والے یونانی معالجین نے مقامی جڑی بوٹیوں سے خوب فائدہ اٹھایا اوراس طبی نظام میں نئی دوائیں شامل کرکے اسے یہاں کے مزاج میں ڈھالنے میں کامیابی حاصل کی اور اس نے جلد ہی مقامی یا دیسی طب کے طور پرمقبولیت حاصل کرلی۔ آزادی سے قبل انگریز حکومت نے دیسی طبوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ،مشہور طبیب اور سیاسی رہنما حکیم اجمل خان نے حکومت کے اقدامات کا بہت پامردی سے مقابلہ کیا اور انہوں نے ہی طب یونانی میں سائنسی اسلوب پر تحقیق کی بنیادڈالی ،جس کے نتیجے میں طب یونانی کانہ صرف وجود باقی رہا بلکہ اس نے صحت عامہ کی بقا میںاہم کردا ر ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یوم پیدائش11 فروری کے دن کو عالمی یوم یونانی کے طور پرسرکاری سطح پر منانے کا التزام کیا گیا ہے۔
آزادی کے فوراً بعدجب دیگر ہندوستانی طبی نظاموں کو فروغ دیا جارہا تھا، اس وقت ہندوستان کی فعال قیادت نے طب یونانی کو بھی اسی مرکزی دھارے میں شامل کیا، جس میں دیگر طبی نظام کو رکھا گیا تھا ،جس کی وجہ سے اسے فروغ ملا۔ تعلیم اور تربیت کو منظم کرنے کے لیے قوانین اوریونانی دواؤں کی تیاری اور اس پر تجربات کے لیے تحقیقی ادارے، تجرباتی لیبارٹریز اور معیاری ضابطے قائم کیے گئے۔ آج طب یونانی اپنے تسلیم شدہ معالجین، اسپتالوں، تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے ساتھ قومی صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے نظام کا ایک لازمی جز ہے۔ حکومت ہند نے 1978 میںیونانی طب میں تحقیق کے لیے علیحدہ طور پر سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن (سی سی آریو ا یم) کی تشکیل کی جو یونانی طب کے مختلف بنیادی اور اطلاقی پہلووؤں پر سائنسی تحقیق کی ایک سرکردہ تنظیم کے طور پر ابھری ہے، اس وقت کونسل کے 23مراکز اور کئی دیگر ادارے ملک کے مختلف حصوں میں یونانی طب پر تحقیق اور تعلیم میں مصروف ہیں۔
آزادی کے وقت ہندوستان میں یونانی طب کی تعلیم کے لیے چند ہی طبیہ کالج تھے،جو معاشی بدحالی اور کسمپرسی کے شکار تھے،ایسے وقت میں ان کالجوں کی درستگی اور نئے کالجوں کے قیام کی ذمہ داری کو آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس نے اٹھانے کا فیصلہ کیا۔جس کے بعد ملک کے مختلف صوبوں میں طبیہ کالجوں کاقیام عمل میں لایا گیا، فی الحال پورے ملک میں 46سرکاری اور غیر سرکاری طبیہ کالج ہیں جن میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح تک تعلیم ہوتی ہے ،دو قومی سطح کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ ایک بنگلور میں اور دوسرا حیدرآباد میں ہے ،جب کہ ایک نیا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن غازی آباد میں بن کر تیار ہے ،مگر وہاں ابھی تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی ہیں۔1970 میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعہ سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن (سی سی آئی ایم) کی تشکیل ہوئی، جس کے ذریعہ طب یونانی میں گریجویشن کی سطح پر بی یو ایم ایس اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر ماہر طب(ایم ڈی) اور ماہر جراحت(ایم ایس)کی اسناد کا التزام کیا گیا اورمعالجین کے رجسٹریشن کے لیے ریاستی حکومتوں کے ذریعہ انڈین میڈیسن بورڈ بنائے گئے۔فی الوقت کم و بیش 48ہزار رجسٹرڈ یونانی معالج ہیں۔2020میں پارلیمنٹ نے نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن یعنی NCISMکے قیام کو منظوری دی جس کے بعد سینٹرل کونسل فار انڈین میڈیسن کو تحلیل کردیا گیا۔اب یہی کمیشن ہندوستانی طبوں کے نصاب،تعلیم و تربیت اور ان کے رجسٹریشن کا ذمہ دار ہے۔ملک کے بیشتر علاقوں میں یونانی اپنا وجود رکھتی ہے ، اعداد وشمار کے مطابق پورے ملک میں حکومت کے زیر اہتمام 252 یونانی اسپتال اور 1453 یونانی ڈسپنسریاںقائم ہیں۔ دوا کی صنعت میں بھی یونانی برابر کی شریک ہے ،دہلی کے مجیدی خاندان کے قائم کردہ ہمدرد دواخانہ نے یونانی ادویات کی صنعت کو جدید بنانے میں گراں قدر تعاون کیاہے، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں 576یونانی دوا ساز کمپنیا ں ہیں جو قرابادینی اور پیٹنٹ ادویات بنارہی ہیں۔
2014 میںمرکزی حکومت نے ہندوستانی طبوں کی ترویج کے لیے ایک علیحدہ وزارت آیوش (AYUSH) قائم کی جو آیوروید، یوگا و نیچرو پیتھی، یونانی، سدھااور ہومیوپیتھی کا مخفف ہے۔ وزارت کے قیام کے اصل مقاصد میں ہندوستانی طب یعنی آیوروید،یوگاو نیچرو پیتھی، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا،امراض اور ان کا شافی علاج مذکورہ طریق علاج میں دریافت کرنے کے لیے تحقیق اور اس کی عوامی افادیت میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت دیگر پیتھیوں کے مقابلے آیورویداور یوگا کی ترقی اور اشاعت پر زیادہ زور دے رہی ہے۔ اسی طرح سے نو تشکیل شدہ قومی کمیشن میں یونانی طب ایک گوشے محدودہے۔اس کمیشن میں آیوروید کے لیے علیحدہ بورڈ ہے، وہیں طب یونانی کو سدھا اورسوا رگپا کے ساتھ ایک علیحدہ بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔10رکنی کمیشن میں7 اراکین بشمول صدر کا تعلق آیوروید سے ہے۔ کمیشن سے وابستہ ’طبی درجہ بندی و معیاربورڈ‘ اور’ایتھکس اینڈ رجسٹریشن بورڈ‘ کی صدارت بھی آیوروید کے ماہرین کے پاس ہے۔ یونانی کی مناسب نمائندگی نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ بی یو ایم ایس میں داخلہ کے لیے سیکنڈری سطح کی اردوکی لازمیت ختم کردی گئی ہے۔دو سال قبل آیوروید کے سرجری میں ڈگری یافتہ معالجین کو سرجری کرنے کی اجازت دی گئی لیکن یونانی ایم ایس(ماہر جراحت)کو اس نوٹیفکیشن سے الگ رکھا گیا۔ مرکزی حکومت کے ملازمین کی صحت خدمات کے لیے قائم سی جی ایچ ایس کے ذریعہ آیوروید ،یوگا اور نیچروپیتھی کے نجی مر اکز پر ڈے کیئر کی سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یونانی کو اس سہولت سے باہر رکھا گیا ہے۔اسی طرح 2016میں ایمس نئی دہلی میںانٹگریٹیو میڈیسن سینٹرکا قیام عمل میں آیا تھا جس میں صرف آیوروید اور یوگا کو ہی شامل کیا گیا تھا جبکہ دوسری پیتھیوں کو یکسر نظرانداز کردیاگیا تھا۔
بہر حال ان سب کے باوجود یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ حکومت بجھے دل سے ہی سہی یونانی کی ترقی کی بات کررہی ہے ،بھلے ہی وہ طب یونانی کی قسمت کے فیصلے آیوروید کے ماہرین سے کرارہی ہے ،یہ بھی ایک مرحلہ ہے ،جو قوموں کی تاریخ میں آتا ہے ، ویسے بھی حکومت کے تعاون اور کچھ الگ چشمے سے دیکھنے کے باوجود طب یونانی مکمل وجود کے ساتھ کھڑی ہے اورصحت عامہ کی بقا میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ طب یونانی کو مقبول بنانے کے لیے عوامی سطح پر بیداری لانے کی بھی ضرورت ہے جسے انفرادی یا مشترکہ طور پر طلبا ، یونانی معالج اور دوا ساز ادارے انجام دے سکتے ہیں۔
(مضمون نگار معالج اور آزاد کالم نویس ہیں)