ایم اے کنول جعفری
جدید طریقہ علاج ایلو پیتھی کے فروغ کے باوجود کچھ لوگ اَب بھی یونانی، آیوروید، ہومیوپیتھی،یوگااور نیچروپیتھی جیسے قدیم طریقہ سے علاج کرانا پسندکرتے ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایلو پیتھی میں بیماری کا فیصلہ مشین اور رپورٹس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے،جبکہ حکیم نبض دیکھ کر یا بیماری کے کوائف کی بنیاد پر دوا تجویز کرتے رہے ہیں۔ انگریزی علاج سے مایوس مریض آخری چارۂ کار کے طورپر قدیم طریقہ علاج کی جانب لوٹنے پر مجبور ہیں۔ یونانی لفظ بنیادی طور پر’لونیان‘ کا عربی ترجمہ ہے،جس کے معنی گریس یایونان ہے۔ یہ قدیم ہندوستانی طبی نظام آیوروید کے قریب ہے۔ آیوروید سنسکرت کے آیوش‘ (زندگی) اور ’وید‘ (سائنس) سے مل کر بنا ہے۔ ہومیو پیتھی یونان کے ’ہوموئس‘(برابر) اور’پیتھوس‘(دردمندی) سے مل کر بنا ہے۔ ہندوستان کو تقریباً 3500 برس پرانی روایتی ادویات کا مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم گیبر یسس نے قدرتی طور پر دستیاب روایتی اَدویات کی تعریف کرتے ہوئے بھارت کو اس کا مرکز بتایا۔ اُنہوں نے تقریباً40فیصد ادویات اور دواسازی کی مصنوعات کو قدرتی مصنوعات پر مبنی بتاتے ہوئے دوسرے ممالک سے اسے اپنانے پر زور دیا۔
گجرات کے گاندھی نگر میں17اگست2023 سے شروع روایتی ادویات پر پہلی عالمی سربراہ کانفرنس میں ڈاکٹر گیبریسس نے کہا کہ ہندوستان نے آیوروید،یونانی اور ہومیوپیتھی کی طاقت بڑھانے کے لیے بہتر کام کیاہے۔ انہوں نے ہندوستان سمیت اُن ممالک سے شواہد پر مبنی کام کو لے کر رائے طلب کی ہے، جہاں روایتی ادویات پر زیادہ کام ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ اِن مشوروں کو عالمی حکمت عملی میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ اس کانفرنس میں لیے گئے فیصلے قومی صحت کے نظام میں روایتی ادویات کے استعمال کو فروغ دیں گے۔ یہ سائنس کے ذریعہ روایتی ادویات کی طاقت بڑھانے میں بھی معاون ہوں گے۔ روایتی ادویات میں ایکیوپنکچر، جڑی بوٹیوں کی دوائیں، مقامی روایتی ادویات، ہومیو پیتھی،آیوروید،یونان و قدرتی ادویات شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق روایتی ادویات سے اسپرین اور آرٹیمیسینن جیسی دوائیں دریافت ہوئیں۔ ڈاکٹر گیبریسس نے کہا کہ ہندوستان نے اینٹی گریٹو میڈیسن کے میدان میںاپنی شناخت بنائی۔ اس نے اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کے لیے اچھا ماڈل تیار کیا،جسے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک بھی اپنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کے ذریعہ رکن ممالک ایک ہی چھت کے نیچے اپنے عوام کو ایلوپیتھی اور روایتی اَدویات دونوں کی سہولت فراہم کرا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے 170ممالک روایتی اَدویات کا استعمال کر رہے ہیں۔ تقریباً80فیصد لوگ کسی نہ کسی طور پر اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں، جبکہ 157رکنی ممالک میں سے97 میں روایتی ادویات کے حوالے سے قومی پالیسیاں موجودہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں بہت اہمیت کے حامل یہ طبی طریقے جدید دَور میں بھی کارگر ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں مہلک مرض ٹی بی انفیکشن کے خلاف بھارت کی لڑائی اور قابل ذکر کوششوںکی تعریف کرتا ہوں۔ٹی بی کے خاتمے کے لیے ہندوستان کا اختراعی نقطہ نظر، کثیر شعبہ جاتی کارروائی اور فنڈنگ قابل ستائش ہیں۔ اس سے دوسرے ممالک کو ترغیب ملتی ہے۔
آیوش کے مرکزی وزیر سربانند سونووال نے روایتی اَدویات کے ہندوستانی نظام کے دائر ے اور کام کی وسعت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ڈیجیٹل ہیلتھ سروسز کی مانگ ہے اور روایتی اَدویات میں پوری انسانیت کو صحت کی خدمات فراہم کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ اس پر کانفرنس میں تفصیل سے تبادلہ ٔخیال کیا گیا اور آنے والے دنوں میں جام نگر کے گلوبل سینٹر آف ٹریڈیشنل میڈیسن کے ذریعہ بہت سے اہم کام انجام دیے جانے کی امیدہے۔ G20وزرائے صحت کے اجلاس کے موقع پر منعقد ہونے والی کانفرنس سے مختلف ممالک کے وزرائے صحت کو روایتی اَدویات پر گفتگو کا موقع ملا۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ مانڈویا نے کہا کہ قدیم علم اور جدید سائنس کو اپناکر ہم ایک زمین،ایک خاندان، ایک مستقبل کے اخلاق کو فروغ دیتے ہوئے صحت کے متعلق پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کی سمت میں اجتماعی طور پر کام کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جدید دَور میں روایتی، قدرتی اور جڑی بوٹیوں پر مبنی دواسازی اور کاسمیٹکس کی مانگ طبی طریقوں کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ مرکزی وزارت صحت کے جوائنٹ سکریٹری لو اگروال نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے ہندوستان کی دوا سستی، معیاری اور رسائی کے لحاظ سے آسان ہے۔ مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں بھارت میں علاج کرانا غیر ملکی شہریوں کو 70 سے 80فیصد تک سستا پڑتا ہے۔
برٹش حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ’رولٹ ایکٹ‘ کا نفاذ کیا۔ اس کے بعد بہت سی مصنوعات پر پابندی عائد ہوگئی۔اس کی آڑ میں دیسی طبوں آیوروید اور یونانی ادویات پر پابندی لگا تے ہوئے ہندوستان کے لوگوںمیں علاج کے لیے انگریزی طریقہ علاج کو متعارف کرایا گیا۔ حکیم اجمل خان نے آیوروید اور یونانی اطباء کو علاج و معالجہ کا حق واپس دلانے کے لیے ’آل انڈیا آیوروید اور یونانی طبی کانفرنس‘ قائم کرکے ملک کے مختلف شہروں میں اجلاس کیے۔آخرکار انگریزوں کو ملک کے حکیموں اور ویدوں کو مریضوں کے علاج کا حق واپس دینا پڑا۔موجودہ دور کی بات کریں تو معیاری مفرد و مرکب ادویات حاصل کرنے میں کافی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ پہلے گلو، کاسنی،مکوہ، گھیکوار،نیم اور تلسی سمیت کئی قسم کی تازہ جڑی بوٹیاں آبادی کے آس پاس آسانی سے دستیاب ہوجاتی تھیں،لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ مریض کی شفایابی کا انحصار مرکبات پر رہ گیا ہے۔ یونانی طریقہ علاج کو فروغ دینے اور اس کا کھویا وقار واپس دلانے کے لیے پھر سے سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی حال آیوروید اور ہومیو پیتھی کا ہے۔ نیم کے درخت کو ’ زندگی کا پیڑ‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کی پتی،پھول، پھل،چھال اور جڑ کئی قسم کی بیماریوں میں مفید ہیں،لیکن اب نیم کے درخت نظر نہیں آتے۔ روایتی ادویات سے مرض پوری طرح ختم ہوجاتا ہے،لیکن تھوڑا وقت لگتا ہے۔ آج کل مریض جلدی شفایاب ہونا چاہتا ہے۔اسی لیے وہ انگریزی دوا کو ترجیح دیتاہے۔ایلوپیتھی طریقہ علاج مریض کو فوری طور پرتو شفا دیتا ہے،لیکن مرض پوری طرح ختم نہیں ہوتا۔ دوسری جانب ہندوستان میں پیدا ہونے والی ادویات پر کئی ممالک اپنا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔1995میں ایک امریکی کمپنی نے یوروپ میں نیم کا پیٹنٹ حاصل کرکے اسے ’ نیمیکس‘ نام دیا۔ بین الاقوامی سطح پرطویل مخالفت اور قانونی لڑائی کے بعدبھارت کو 2005میں کامیابی ملی،لیکن کئی ممالک خاص طور پر چین ان مصنوعات کو دنیا میں اپنے مالکانہ حق کے ساتھ فروخت کر رہا ہے،جن کی پیداوار اور تاریخ کا تعلق بھارت سے ہے۔ نیوساؤتھ ویلس یونیورسٹی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ روایتی طریقہ علاج کا علم کافی پُرانا ہے۔بازار میں ایسی ڈھیروں مصنوعات ہیں جن کا اصل تعلق روایتی طریقہ علاج سے ہے،لیکن پرائیویٹ کمپنیاں انہیں الگ الگ ناموں سے فروخت کر رہی ہیں۔ بعد میں یہی کمپنیاں ان کا پیٹنٹ حاصل کرکے قانونی طور سے ان پر قابض ہو جاتی ہیں۔
ہندوستانی وزارت آیوش نے آئی سی اسکیم کے تحت ایک مرکزی سیکٹر اسکیم تیار کی ہے،جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر آیوش میڈیسن سسٹم کے بارے میں بیداری و دلچسپی کو فروغ دینا ہے۔ دواؤں کے پودے یونانی اور آیورویدک ادویات کے لیے اہم وسائل کی بنیاد ہیں۔ اس کے لیے مرکز ریاستی جنگلات کے محکموں کو امداد فراہم کرتاہے۔ ملک میں یونانی، آیوروید،یوگا، نیچروپیتھی، سدھ اور ہومیو پیتھی جیسے طریقہ علاج کے فروغ کے لیے علیحدہ وزارت’آیوش‘ قائم کی گئی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]