ہندوستان پر بھی دنگل ٹالنے کا دارومدار

0

اُپیندررائے:کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں
بڑی طاقت بڑی ذمہ داری لاتی ہے۔ کہنے کو یہ کہاوت بھلے ہی ایک کامک سیریز اسپائڈرمین سے مقبول ہوئی ہے، لیکن دنیا اس بات کی سنجیدگی کو سمجھتی ہے۔ اس لیے یہ اتفاق نہیں کہ جب جب اس بات کو نظرانداز کرنے کی کوشش ہوئی ہے، تب تب تباہی کی آہٹ سنائی دی ہے۔ ایران پر امریکی حملہ اور اس کے بعد پیدا ہوئے حالات اس بات کی نئی مثال ہیں۔
امریکہ نے نئے سال کے پہلے ہفتہ میں بغداد ایئرپورٹ پر جنرل قاسم سلیمانی کو ایئراسٹرائک میں مارگرایا۔ اس کے بعد ایران نے عراق میں امریکہ کے دو فوجی ٹھکانوں پر آپریشن شہید سلیمانی کے تحت 22میزائلیں داغیں اور 80امریکیوں کے مارے جانے کا دعویٰ کیا۔ حالاں کہ امریکہ نے موت کے اعدادوشمار کی تصدیق نہیں کی لیکن ایران اسے سلیمانی کی موت کا بدلہ بتارہا ہے۔ ’وار-پلٹ وار‘(حملہ-درحملہ)کے اس واقعہ نے دنیا کو اچانک تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا۔
امریکہ کی جانب سے سلیمانی پر حملہ کی کئی وجوہات گنوائی گئیں۔ کہا گیا کہ سلیمانی کے اکسانے پر ہی بغداد میں امریکی سفارتخانہ کو گھیرا گیا، 27دسمبر کو راکٹ حملہ میں امریکی ٹھیکہ دار کا قتل کیا گیا، اس سے پہلے سعودی عرب کے ایک تیل کے خطہ پر زبردست حملہ کیا گیا۔ لیکن ان سب کے دوران امریکہ کی اس کارروائی کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سلیمانی اسامہ بن لادن یا بغدادی نہیں تھا، جسے قوانین کو طاق پر رکھ کر مار دیا جائے۔ سلیمانی جو کررہا تھا اس میں اسے اپنے ملک کی بھلائی نظر آتی تھی۔ امریکہ کو وہ اکسانے والی کارروائی لگ رہی تھی تو بھی دنیا کے سب سے طاقتور ملک ہونے کے ناطے اس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ بات چیت کی پہل کرتا، ایران کے دوست ممالک کے ساتھ بات چیت کرتا اور یہ بھی ممکن نہ ہوتا تو سیکورٹی کونسل کے ذریعہ صلح کے راستے تلاش کرتا۔ لیکن امریکہ نے ان امکانات کو درکنار کرتے ہوئے طاقت کے مظاہرے کے راستہ کا انتخاب کیا جس نے پوری دنیا کو سکتے میں لادیا۔
امریکی حملہ کے پس منظر میں ڈونالڈ ٹرمپ کا وہ بیان بھی آیا جس میں وہ ایران کے 52مقامات کو امریکہ کے نشانہ پر بتارہے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران نے 1979میں 52امریکیوں کو ایک سال تک بندی بناکر رکھا تھا اور 52مقامات پر حملہ کرکے وہ اسی بات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ مبینہ قوم پرستی کی اس سے بچکانی سوچ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی جو ایک ملک کو آگے لے جانے کے بجائے 40سال پیچھے لے جانے والی ہو۔ 
امریکہ بے شک جنرل قاسم سلیمانی کو دہشت گرد کہتا تھا، لیکن سلیمانی حقیقت میں ایران کے لیے ڈھال تھے۔ پورا ایران ان پر اپنی جان چھڑکتا تھا۔ سلیمانی کے جنازہ میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے، وہ ان کی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے اچانک سلیمانی کو دہشت گرد قرار دےے جانے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ ایران کے سب سے طاقتور اور عظیم مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کے بعد انہیں ایران کا دوسرا سب سے طاقتور انسان سمجھا جاتا تھا۔ سلیمانی قدس فورس نام کے فوجی دستہ کے چیف تھے جو دنیا کے کونے کونے میں ایران کے دشمنوں کو مٹانے کا کام کرتی تھی۔ سلیمانی کی قیادت میں اسی فورس نے مقامی تنظیموں کے تعاون سے عراق میں دنیا کی سب سے شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا خاتمہ کیا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ سلیمانی کی وجہ سے ہی شام کو دہشت گرد ملک قرار دےے جانے کا امریکہ کا ایجنڈا پورا نہیں ہوپایا تھا۔ سلیمانی نے گزشتہ سال امریکہ کو کھلے عام چیلنج کیا تھا کہ اقتصادی پابندیاں دوبارہ بحال کرکے امریہ نے بیشک ایران کے خلاف جنگ شروع کی ہو لیکن اسے ختم ایران ہی کرے گا۔ امریکہ اور خاص طور سے ڈونالڈٹرمپ اسی وجہ سے سلیمانی سے خارکھائے بیٹھے تھے اور ان کا صفایا کرنے کے موقع کی تلاش میں تھے۔ سلیمانی کو ہلاک کرکے ٹرمپ اپنی سنک پوری کرنے میں کامیاب ضرور ہوگئے، لیکن اس کے ذریعہ انہوں نے پوری دنیا کو خطرہ میں ڈال دیا۔
وہ تو بھلا ہو امریکی پارلیمنٹ کا جس نے سمجھداری دکھاتے ہوئے ٹرمپ کی سنک سے فی الحال دنیا کو بچا لیا۔ امریکی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کی ایران کو جواب دینے کی منشا پر پانی پھیرتے ہوئے ایک تجویز لائی گئی۔ جنگ کے خلاف آئی تجویز کی حمایت میں 224ووٹ پڑے اور مخالفت میں صرف 194ووٹ۔ اتنا ہی نہیں، اب اس تجویز کے پاس ہوجانے سے ٹرمپ کی طاقت بھی محدودہوگئی ہے۔ مواخذہ کی حمایت میں ووٹنگ کے بعد امریکی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کی یہ دوسری ہار ہے۔
دراصل ٹرمپ کے ’آپریشن ایران‘ کا ترغیب دہندہ بھی اسی ہار کو سمجھا جارہا ہے۔ امریکہ الیکشن کے دہانے پر کھڑا ہے اور مواخذہ کی تلوار جس طرح ٹرمپ کی شبیہ کو تار تار کررہی ہے، اس نے ٹرمپ کے سامنے کرو یا مرو کے حالات کھڑے کردےے ہیں۔ ویسے بھی جنگ اور امریکی انتخابات کا پرانا کنکشن رہا ہے۔ 2003میں عراق پر امریکی حملہ کو 2004 میں بش کی انتخابی جیت کا بڑا ہتھیار سمجھا گیا تھا۔ 2011میں جب براک اوبامہ دوبارہ صدر بننے کی تیاری کررہے تھے، تب ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ الیکشن جیتنے کے لےے اوبامہ ایران کے ساتھ جنگ شروع کرسکتے ہیں۔ اتفاق دیکھئے کہ اوبامہ نے تو ایسا کچھ نہیں کیا، لیکن ٹرمپ ضروری اسی راستہ پر آگے بڑھ گئے۔ بغداد پر ہوائی حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ میں الیکشن کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ لیکن جس طرح امریکہ میں پارلیمنٹ سے سڑک تک اس حملہ کی مخالفت ہوئی، اس سے لگتا ہے کہ ٹرمپ کا یہ پانسہ اُلٹا پڑگیا ہے۔
شاید اسی لیے ایرانی حملہ کے بعد ٹرمپ جب دنیا کے سامنے آئے توانہوں نے ایران کے عوام کا مستقبل تو بہتر بتایا ہی، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ان کا مقصد ایران میں اقتدار کی منتقلی نہیں، بلکہ اسے ایٹمی طاقت نہیں بننے دینا ہے۔ اپنی گستاخی پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ٹرمپ اب اوبامہ دوراقتدار میں ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی سمجھوتے کو بڑی غلطی بتارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ روس، چین جیسے ایران کے دوست ممالک اسے امریکہ کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے کے لیے تیار کریں۔ لیکن چین نے جس طرح اس تجویز کو خارج کیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ٹرمپ کی یہ حسرت بھی ادھوری رہ جائے گی۔
شروعاتی جارحیت کے بعد دونوں ممالک کی اعتدال پسندی سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بھلے ہی کم ہوئی ہو، لیکن جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ اندیشہ ہے کہ امریکہ اگر اس علاقہ میں اب کوئی بھی حماقت کرتا ہے تو روس اور چین ایران کی مدد کے لیے آگے آسکتے ہیں۔ ایران چوں کہ شیعہ ملک ہے اس لیے اگر امریکہ آگے بڑھتا ہے تو سنی اکثریت والے سعودی عرب، یو اے ای، کویت، قطر اور اسرائیل اس کی حمایت کرسکتے ہیں۔
ان حالات میں دنیا کو تباہی سے بچانے کے لےے ہندوستان کا کردار بڑا ہوجاتا ہے۔ چوں کہ ہندوستان امریکہ اور ایران دونوں کا قریبی مددگار ہے، اس لیے وہ اس کی بات سن سکتے ہیں۔ ہندوستان میں ایران کے سفیر اور امریکہ کی وزارت دفاع بھی کہہ چکی ہے کہ کشیدگی کم کرنے کے لےے وہ ہندوستان کی کوششوں کا خیرمقدم کریں گے۔ فی الحال جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے، اس لےے اس کے اثر پر ابھی بات کرنا فضول ہوگا، لیکن کشیدگی کے درمیان دونوں ممالک کو ساتھ لے کر کیسے آگے بڑھا جائے یہ دیکھنا ضروری ہوگا۔
ایران کے ساتھ ہندوستان کے پرانے ثقافتی تعلقات رہے ہیں۔ 2016میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اس دورہ میں اسٹریٹجک اہمیت قائم کرتے ہوئے اسے چاہ بہار پورٹ سے جوڑا گیا تھا اور چین اور پاکستان کی بڑھتی دوستی کی کاٹ بتایا گیا تھا۔ ویسے بھی ہندوستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لحاظ سے ایران ایک اہم ملک ہے۔ 2008 میں عرب کی خلیج میں ایران کے سمندری علاقہ میں قدرتی گیس کی تلاش2008میں ایک ہندوستانی ٹیم نے ہی کی تھی۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں ہندوستان کی امریکہ سے قربتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد اس میں توازن کے نئے باب جڑے ہیں۔ مودی حکومت کی مسلسل کوششوں سے امریکہ نے پاکستان پر لگام کسی ہے، مسعود اظہر سمیت یو این ایس سی، این ایس جی میں ممبرشپ جیسے کئی محاذ پر ساتھ بھی ملا ہے۔
ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں دیکھنے والی بات صرف یہی نہیں ہوگی کہ دنیا اس بحران سے باہر کیسے نکلتی ہے، نظریں اس بات پر بھی رہیں گی کہ دنیا کو تباہی سے بچانے میں ہندوستان کیسے اپنی ذمہ دار نبھاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS