ایک طرف شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں عوام سڑکوں پر اترے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف اس قانون سے متعلق کئی طرح کی پیچیدگیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ دہلی کے جامعہ نگر میں رہنے والے عبدالغفار سولنکی اس قانون کے پاس ہونے کے بعد ایک عجیب ہی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر علی گڑھ ضلع کے رہنے والے ہیں اور ان کے باپ، دادا، پردادا سبھی ہندو مذہب کو ماننے والے تھے،لیکن پھرایک وقت ایسا آیا جب ان کا پورا خاندان مسلم ہو گیا۔ شہریت قانون نافذ ہونے کے بعد ان کے لیے پریشانی یہ پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آخر سرکار کو کون سا کاغذ دکھائیں اور انہیں کس خانے میں رکھا جائے گا۔
ایک ہندی نیوز پورٹل سے بات چیت کرتے ہوئے عبدالغفار سولنکی نے کہا کہ ’شہریت قانون اور این آر سی کو لے کر میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب میرا کیا ہوگا۔ میری اور میری فیملی کا کیا ہوگا۔ کیا مجھے مسلم طبقہ میں رکھ کر قانون کے تحت اپنی پیدائش کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا یا پھرآبا و اجداد کے ہندو ہونے کی وجہ سے چھوٹ ملے گی اور ان کی شہریت پر کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‘
عبدالغفار تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر 50 سال پرانا ریکارڈ دکھایا جائے تو میرے باپ دادا کا نام ہندو ہے اور میں ایک مسلمان ہوں۔ میری فیملی میں چچا، چچیرے بھائی، بہن اور تقریباً ڈیڑھ سو لوگوں کے سامنے یہی سوال کھڑا ہے کہ آخر ہمارا کیا ہوگا! عبدالغفار کا کہنا ہے کہ ’میرے دادا کا نام سکھا سنگھ سولنکی اور دادا کا نام تیج سنگھ سولنکی تھا اور والد کا نام بھگوتی پرساد سولنکی ہے۔ ہمارا پورا خاندان 1947 کے بعد مسلمان ہو گیا اور ہم نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ لیکن اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ ہماری فیملی سرکار کو کون سے کاغذ دکھائے۔‘
پورے ملک میں شہریت قانون کو لے کر پیدا مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے عبدالغفار مودی حکومت اور وزیر داخلہ امت شاہ سے یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ ان کے لیے اور ان جیسے لوگوں کے لیے کیا کوئی خاص راستہ نکالا جائے گا، کیونکہ کئی ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر دیا ہوگا۔
شہریت قانون: مشکل میں عبدالغفار، کہا ’آباواجداد ہندو، میں مسلمان، میرا کیا ہوگا؟‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS