پروفیسر عتیق احمد فاروقی
گلوان تصادم کے بعد پہلی بار نئی دہلی پہنچے چین کے وزیر خارجہ وانگ ای کے دورے کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہی کہنا مناسب ہوگا کہ وہ ٹھنڈے پڑے دوطرفہ تعلقات میں حرارت لانے کے لیے اقتصادی پہلوؤں کو ترجیح دیتے رہے، مگر سرحدی کشیدگی کم کرنے کے معاملے پر کوئی واضح اور پختہ اشارہ سامنے نہیں آیا۔ ہندوستان کا مؤقف بالکل صاف ہے کہ سب سے پہلے سرحد پر امن و استحکام قائم ہو، اس کے بعد ہی تعلقات میں پیش رفت ممکن ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے روابط پر جمی برف جلدی پگھلنے والی نہیں۔
وانگ ای کے دورۂ ہند کی تین بنیادی وجوہات تھیں: پہلی، ہند – چین کے خصوصی نمائندوں کے 24 ویں دور کے مذاکرات میں شرکت، جہاں دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر بات ہوئی۔ چینی وزیر خارجہ کی رائے تھی کہ دونوں ممالک کو باہمی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے اور عالمی اقتصادی عدم استحکام جیسے مسائل پر مشترکہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ تاہم ہندوستانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اس سے متفق نہ تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تین اصول بنیادی ہیں: باہمی احترام، حساسیت اور ایک دوسرے کے مفاد کا خیال۔
وانگ ای کے دورے کا دوسرا مقصد ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا تھا جنہیں اگست ماہ کے آخر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزارتی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں شامل کیا جانا تھا۔ عام طور پر بڑے اجلاس سے پہلے میزبان ملک کے وزیر خارجہ شرکا ممالک کے درمیان دورہ کر کے ان نکات پر رائے ہموار کرتے ہیں جن پر اجلاس میں گفتگو ہونی ہے۔ یہ اجلاس دو روزہ تھا اور چین کے شہر تیانجن میں تجویز تھا، جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی۔ یہ سات سال بعد ہندوستانی وزیراعظم کا چین دورہ تھا۔
چینی وزیر خارجہ کے دورے کا تیسرا مقصد امریکی ٹیرف کے مقابلے میں مشترکہ حکمت عملی کے لیے ہندوستان کو تیار کرنا تھا۔ چین کا ماننا ہے کہ امریکہ جس طرح ٹیرف میں اضافہ کر کے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے بڑی معیشتوں کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے۔ ماضی میں چین، یوروپی یونین اور ہندوستان نے اس سمت میں پیش رفت کی کوشش کی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس بار بھی وانگ ای اپنی کوششوں میں کسی حد تک کامیاب ضرور ہوئے، لیکن ہندوستان کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ سرحدی تحفظ ہے۔
2020 کے گلوان حادثے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں خاصی تلخی آئی ہے، جس کا نقصان چین کو بھی اٹھانا پڑا۔ رہی بات امریکی ٹیرف کی، تو اس پر مشترکہ موقف اپنانا مشکل ہے کیونکہ امریکہ الگ الگ ممالک سے الگ سطح پر سودے بازی کرتا رہا ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ برکس (BRICS) کا ہے، جس کے ہندوستان اور چین دونوں اہم رکن ہیں۔ اس تنظیم پر امریکہ کی کڑی نظر رہی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا الزام تھا کہ برکس ڈالر کی بالادستی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے اور انہوں نے ایسے ممالک کے خلاف 100 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان نے ایسی کسی کوشش میں کبھی شمولیت نہیں کی۔ البتہ چین اپنی کرنسی یوآن کو عالمی سطح پر آگے بڑھانا چاہتا ہے جو کئی ممالک کو قبول نہیں۔
فی الحال چین خود امریکہ سے براہِ راست تصادم کے لیے تیار نظر نہیں آتا کیونکہ دونوں ممالک تجارتی معاہدوں کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا برکس کے اجلاس سے بھی اس بار بڑی توقعات وابستہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان اتنے حساس مسائل ہیں کہ تعلقات کے جلد معمول پر آنے کی توقع غیر حقیقی ہوگی۔ سرحدی تنازع، ہند-بحرالکاہل علاقے میں تزویری مسابقت اور تجارتی عدم توازن ان میں بڑے چیلنجز ہیں۔
ہند-بحرالکاہل خطہ اب عالمی سیاسی و اقتصادی طاقت کا مرکز بن چکا ہے۔ اس خطے میں ہندوستان، چین، جاپان، آسٹریلیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک شامل ہیں اور عالمی معیشت میں اس کی شراکت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ چین کی کوشش رہی ہے کہ اس خطے پر اپنی بالادستی قائم کرے، لیکن ہندوستان ہمیشہ اس کا مخالف رہا ہے اور وہ ایسا نظام چاہتا ہے جو سب کے مفاد میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی پلیٹ فارموں پر ہندوستان کی حیثیت ایک اہم اور متوازن آواز کے طور پر ابھری ہے، جسے چین بظاہر قبول کرنے کو تیار نہیں۔
دوسری جانب دوطرفہ تجارت کا پلڑا بھی چین کے حق میں بہت بھاری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2025 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 113.5 ارب ڈالر تک پہنچا، مگر اس میں ہندوستان کی برآمدات صرف 14.3 ارب ڈالر رہیں جبکہ درآمدات 99 ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئیں۔ اس زبردست تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے نئی دہلی ملکی مصنوعات پر زور دے رہی ہے اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ 31 اگست کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جب وزیراعظم نریندر مودی چین جائیں گے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ نرمی ممکن ہے۔ تاہم اس امکان کو زیادہ حقیقت پسندانہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک تعلقات معمول پر لانے کے سنجیدہ دعوے کرتے ہیں، مگر چین کی نیت میں اب بھی ابہام محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ برس جب وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ کثیر قطبی دنیا صرف کثیر قطبی ایشیا سے ہی ممکن ہے تو چین نے اس پر ناراضگی ظاہر کی، کیونکہ وہ خود کو ایشیا میں واحد غالب طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔
اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان خلیج اب بھی بہت گہری ہے اور اس کو پاٹنا اتنا آسان نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی بدگمانیاں، تزویری خدشات اور اقتصادی تضادات ایسے عوامل ہیں جو وقتی مسکراہٹوں اور رسمی بیانات سے دور نہیں ہو سکتے۔ اصل کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب چین سرحدی مسائل کے حل کی طرف سنجیدہ اور مخلصانہ پیش رفت کرے۔ بصورت دیگر تعلقات میں اعتماد کی بحالی محض ایک خواب ہی رہے گی۔ ہندوستان کی طرف سے یہ پیغام صاف ہے کہ اقتصادی تعلقات کی حرارت اسی وقت بڑھ سکتی ہے جب سرحدوں پر ٹھنڈک اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔
atiqfaruqui001@gmail.com