دلائی لامہ پر آمنے سامنے آئے ہند- چین: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

بودھ مذہب کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا دلائی لامہ تینجن گیاتسو کو لے کر ایک مرتبہ پھر ہندوستان اور چین آمنے سامنے آگئے۔13جولائی کو چینی سفارت خانے کے ترجمان یو جینگ نے دلائی لامہ کی جانشینی معاملے کو چین اور ہندوستان کے تعلقات میں کانٹا بتایا۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دلائی لامہ کے یوم پیدائش پر مبارک باد دینے پر چین نے ناراضگی کا اظہار کیا۔وہ دلائی لامہ کے جنم دن کی تقریب میں ہندوستانی وزرا کی شمولیت اور وزیراعظم کے مبارک باددینے کو چین کے اندرونی معاملے میں مداخلت بتارہا ہے۔ اُس نے ہندوستان سے ایسے معاملات میں حساس ہونے اور سوچ سمجھ کر تبصرہ کرنے کو کہا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤننگ نے کہا کہ نئی دہلی کو شیزانگ(تبت) سے متعلق مسائل کی انتہائی حساسیت کو سمجھنا چاہیے۔اسے چین کے اندرونی مسائل میں مداخلت اور فائدہ اُٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ چین دلائی لامہ کو جلاوطن علیحدگی پسند سمجھتا ہے،جب کہ ہندوستان ’بدھ مت ‘کے مذہبی رہنما کے طور پر ان کا احترام کرتا ہے۔ پی ایم مودی نے 6جولائی کو ان کے یوم پیدائش پر مبارک باد دیتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا: ’میں 1.4اَرب ہندوستانیوں کے ساتھ مل کر تقدس مآب دلائی لامہ کو ان کی 90 ویں سالگرہ پر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔وہ محبت،ہمدردی،صبر اور اخلاقی نظم و ضبط کی ایک لازوال علامت رہے ہیں۔ان کے پیغامات تمام مذاہب میں احترام اور تعریف کا ایک ذریعہ رہے ہیں۔‘

دلائی لامہ2جولائی2025کو ایک مرتبہ پھراُس وقت سرخیوں میں آئے،جب انہوں نے اپنے جا نشین کے انتخاب کو لے کرخاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ ان کے جانشین کا انتخاب ان کی موت کے بعد تبتی بودھ روایات کے مطابق عمل میں لایاجائے گااور اس عمل میں چین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے اپنے جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری’گادین فوڈرنگ ٹرسٹ‘ کو سونپ رکھی ہے۔اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی تنظیم یعنی دلائی لامہ کی تنظیم مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔ 24 ستمبر 2011کو تبتی بودھ روایات کے سربراہوں کی میٹنگ میں دلائی لامہ کی روایت کو آگے بڑھانے کا معاملہ اُٹھا اور ان کے 90برس پورے ہونے کے بعد اس بابت فیصلہ لینے کی بات کہی گئی تھی۔ حالاں کہ اس موضوع پر کوئی عوامی بحث نہیں ہوئی، لیکن گزشتہ 14برسوں میں تبتی مذہبی روایات کے رہنماؤں، تبتی پارلیمنٹ کے اراکین، مرکزی تبتی انتظامیہ،این جی او، ہمالیائی علاقہ، منگولیا، روس کے بودھ جمہوریہ اور چین سمیت ایشیاء کے کئی ممالک کے بودھ عقیدت مندوں نے دلائی لامہ کو خط لکھ کر تنظیم کو جاری رکھنے کی گزارش کی۔تبت کے اندر سے بھی اسی طرح کی اپیل کی گئی۔دلائی لامہ نے سبھی گزارشات کے مدنظر تنظیم کے آگے بھی جاری رہنے کا اعلان کیا۔

اگلے دلائی لامہ کی پہچان اور منظوری کے عمل کا اختیار ’گادین فوڈرنگ ٹرسٹ‘ کو ہے،جو ان کے سرکاری دفتر کا حصہ ہے۔کوئی دیگر شخص،تنظیم یا حکومت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔کوئی دیگراگلے دلائی لامہ کی تقرری نہیں کرسکتا۔ انہوں نے یہ اعلان دھرم شالہ سے کیا،جہاںوہ چین سے جلاوطن کے بعد سے مقیم ہیں۔ بدھ مذہب کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے 5 جولائی کو اپنے جنم دن سے قبل میکلوڈ گنج کے چوگلکھانگ مٹھ میں منعقد دعائیہ تقریب میں130برس سے بھی زیادہ عمر تک زندہ رہنے کی اُمیدظاہر کی۔ اس اعلان کے بعد چین نے کہا کہ نئے دلائی لامہ کی تقرری چین کی مرکزی حکومت کی منظوری سے کی جائے گی۔ کمیونسٹ چین نے 1951میں تبت پر قبضہ کیا۔اس کے بعددلائی لامہ ہندوستان آگئے اور تب سے انہیں چین میں علیحدگی پسند سمجھا جاتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ دلائی لامہ دنیا کے سب سے اہم مذہبی رہنماؤں میں سے ایک ہیں،جن کے پیروکار پورے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔تائیوان کے صدر ولیم لائی چنگ ٹے،امریکہ کے سابق صدورجارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور براک اوباما نے انہیں سالگرہ کی مبارک باد پیش کی۔پارلیمانی اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو، پنچایتی راج کے مرکزی وزیر راجیو رنجن سنگھ، اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ پیما کھانڈو، رکن پارلیمنٹ تاپیر گاؤ، سکم سرکار کے وزیر سونم لامہ اور کئی ممالک کے نمائندے و پیروکار تقریب میں شامل رہے۔

دلائی لامہ 6جولائی 1935 کو شمال مشرقی تبت کے ایک چھوٹے سے گاؤں تکستر امدو میں ایک غریب کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔اُن کا خاندانی نام لھامو تھونڈپ رکھاگیا۔جب وہ دو برس کے ہوئے تو بدھ مت کے مطابق انہیں13ویں دلائی لامہ کا دوسرا جنم یعنی14واںدلائی لامہ قرار دیاگیا۔جب کوئی لامہ فوت ہونے لگتا ہے تو وہ اپنی وفات سے پہلے یہ ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اپنے آئندہ جنم میں کس گھرانے میں پیدا ہوگا۔ان ہدایات کے پیش نظر اہل تبت بیان کردہ خاندان کے نوزائیدہ بچے کو دلائی لامہ کی مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں۔لہٰذا1937میں 2برس کی عمر کے لھامو تھونڈپ (تینجن گیاتسو) کی شناخت نئے دلائی لامہ کے طور پر کی گئی۔ 22 فروری 1940 کو انہیں لہاسہ لاکر دلائی لامہ کے مسندپر بٹھایاگیا۔ تبت کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ دلائی لامہ کی پہلی روح ہی باربار جنم لیتی ہے۔ روایتی عقیدہ ہے کہ تمام دلائی لامہ ایک ہی روح کا تسلسل ہیں،تاہم موجودہ دلائی لامہ اس کو من و عن تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام14دلائی لامہ ایک ہی شخص ہیں، لیکن اس نسب میں موجود ہر فردکا دلائی لامہ کے نسب سے ایک خاص تعلق ضرور ہے۔ دلائی لامہ کے انتخاب کا عمل سخت، پیچیدہ اور طویل ہے۔ کبھی کبھی موجودہ دلائی لامہ کی طرح شناخت میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ اعلیٰ رتبے پر فائز بھکشو اس بچے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، جو دلائی لامہ کی موت کے وقت پیدا ہوا ہو۔ ایسا عقیدہ ہے کہ کبھی کسی بھکشو کو خواب میں اس بچے کی شناخت کا اشارہ مل جاتا ہے تو کبھی گزرے دلائی لامہ کی چتا کی راکھ سے اُٹھتے دھویں سے ان کے دوبارہ جنم کی جگہ کا اشارہ مل جاتا ہے۔

بچے کی پیدائش کے مقام کی شناخت ہونے کے بعداس کے سامنے کئی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔اگر وہ پچھلے دلائی لامہ کی چیزوں کو پہچان لیتا ہے تواسے اوتار کے دوبارہ جنم لینے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔جب معتبر بھکشو مطمئن ہو جاتے ہیں،تب بچے کا انتخاب کرکے اسے برسوں تک مذہبی تربیت اور تعلیم دی جاتی ہے۔اب تک صرف دو ہی دلائی لامہ تبت سے باہر منگولیا اور شمال مشرقی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ دلائی لامہ دراصل ایک منگولی عہدہ ہے،جس کا مطلب علم کا سمندر ہے۔دلائی لامہ کو رحمت و شفقت کے بدھا اولوکیتیشور کی خصوصیات رکھنے والے بدھا کے طور پر مانا جاتا ہے۔بودھی ستوا ایسے صاحب علم لوگ ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنے نروان کو ٹال دیا ہو اور انسانیت کی حفاظت کے لیے دوبارہ جنم لینے کا فیصلہ کیا ہو۔ 6برس کی عمر میںدلائی لامہ کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوااور1959میں 23سال کی عمر میں تعلیم کا اعلیٰ امتحان پاس کیا۔انہوں نے بدھ مت ازم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔چین نے 1950 میں اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہوئے چینی فوج کوتبت بھیجا۔1959 میں تبت میں چین مخالف بغاوت کی ناکامی کے بعد دلائی لامہ نے راہ فرار اختیار کرکے ہندوستان کا رُخ کیا اور جلاوطنی کے دوران حکومت قائم کی۔اگرچہ وہ اس جلاوطن حکومت سے دستبردار ہوچکے ہیں،لیکن انہیں بیجنگ کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چین انہیں ’سیاسی جلاوطن‘ قرار دیتا ہے،جو مذہب کی آڑ میں چین مخالف علیحدگی پسند سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ چین نے اگلے دلائی لامہ کے انتخاب پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے 2007 میں پہلے ہی ایک حکم نامہ جاری کر رکھاہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی طرح ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ڈائریکٹر سارہ بروکس کا کہنا ہے کہ چین کو تبت کی مذہبی روایت میں سیاسی مداخلت بند اور مذہبی جانشینی کو کنٹرول اور دباؤ کا ہتھیار بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS