ہندوستان اور چین سرحدی تنازع مزید کشیدہ ہو رہا ہے سرحد کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اس معاملے نے ایک اہم رخ کر لیا ہے۔ آئے دن الزامات اور جوابی الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
ہندوستان میں مرکزی حکومت کو دو طرفہ چیلنج درپیش ہیں۔ پہلا چیلنج یہ کہ چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا اور دوسرا چیلنج سیاست ہے۔ سرحدی تنازے پر اس وقت مرکزی حکومت اپوزیشن کی مسلسل تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ حکومت سے جواب طلب کر رہی ہے۔ لیکن حکومت بھی اس پر ابھی کوئی واضح جواب نہیں دے پائی ہے۔
وادی گلوان میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے بعد ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ حکومت کے بیانات میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ چین میں ہندوستانی سفیر کے بیان کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی نظر آتی ہیں۔
چین میں تعینات ہندوستانی سفیر وکرم مصری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہندوستان نے ہمیشہ ہی ایل اے سی پر اپنی طرف کام کیا ہے۔ زمینی سطح پر چینی فوج کے اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد میں کمی آئی ہے۔‘
خیال رہے کہ ہندوستانی سفیر کا یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان سے بالکل مختلف تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 19 جون کو ایک کل جماعتی میٹنگ میں کہا تھا کہ ’نہ تو کوئی ہمارے علاقے میں داخل ہوا ہے اور نہ ہی کسی پوسٹ پر قبضہ کیا گیا ہے۔‘ تاہم انھوں نے یہ ضرور تسلیم کیا تھا کہ سرحد پر کشیدگی کے دوران 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
مختلف جوابات سے پیدا ہونے والے سوالات!!
چین میں ہندوستانی سفیر اور وزیر اعظم مودی کے بیانات میں فرق سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا مودی حکومت چین کے سامنے اپنی حکمت عملی میں ناکام ہوچکی ہے اور حزب اختلاف نے حکومت سے مسلسل سوالات پوچھ کر مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت اب اپوزیشن کو جوابات تو دے رہی ہے لیکن ان میں طنز کا پہلو نمایاں ہے۔
خیال رہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان، وزیر اعظم مودی کی سربراہی میں چین کے خلاف سرحد پر اور ملک کے اندر کورونا وائرس کے خلاف دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کرے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اتوار کے روز اپنے سلسلہ وار پروگرام ’من کی بات‘ میں کہا کہ لداخ میں جن لوگوں نے انڈیا پر ٹیڑھی نگاہ ڈالی تھی انھیں سخت جواب دیا گیا ہے۔
وزیراعظم مودی نے آج لاک ڈاون کو مرحلے وار کھولنے کے منصوبے کے تحت ان لاک 2 نافذ کرنے کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے کئی باتیں رکھیں، لیکن ہند چین مسئلے پر خاموشی اختیار کی۔ چونکہ چین سرحد پر جھڑپوں کے بعد یہ وزیراعظم مودی کا عوام سے پہلا خطاب تھا تو لوگ امید کر رہے تھے کہ وہ اس پر بولیں گے لیکن انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
لیکن حزب اختلاف کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کی وجہ سے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ نظر آتا ہے۔
حکومت کس چیز کا دفاع نہیں کر پا رہی ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو چین کے ساتھ حالیہ تنازعے کا سیاسی طور پر دفاع کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے؟ اپوزیشن بار بار جواب مانگ رہی ہے۔ آخر حکومت پر کس طرح کا دباؤ ہے؟
سینیئر صحافی رادھیکا راماسیشن کا کہنا ہے کہ جس طرح سے حکومت کے بیانات سامنے آئے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انھیں پریشانی کا سامنا ہے۔ ایک بیان دوسرے بیان کے خلاف نظر آتا ہے اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو پریشانی ہے۔
انھوں نے کہا: 'اگر چین کی جگہ پاکستان نے کوئی ایسا کام کیا ہوتا تو شاید ہندوستان کی حکمت عملی اور اس کی انتقامی کارروائی مختلف ہوتی۔ لیکن چین کے ساتھ تعلقات کے مدنظر حکومت کہیں نہ کہیں الجھی ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’جہاں تک سرحد پر لڑائی کا تعلق ہے تو یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ چین نے کیا اقدامات کیے۔ کتنا قبضہ کیا ہے۔ کہاں قبضہ کیا ہے؟ کیا انڈیا نے چینی فوجیوں کو واپس بھیج دیا؟ کچھ واضح نہیں ہے۔'
چند روز قبل این سی پی سربراہ شرد پوار نے اپنے بیان میں کہا کہ قومی سلامتی کے مسئلے پر سیاست نہیں کیا جانی چاہئے۔ انہوں نے یہ بیان کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے حکومت پر اٹھائے سوالوں کے بعد سامنے آیا۔ انہوں نے کہا قومی سلامتی کا مسئلہ مذاق نہیں ہے، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جو پارٹی کی سیاست سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے۔