نئی دہلی: شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین کی روشن کی گئی شمع کی روشنی پورے ملک
میں پہنچ چکی ہے،اور احتجاج کی یہ شمع اس وقت پورے ملک میں خواتین نے رات دن کا مظاہرہ کرکے جلا رکھی ہے اور اس وقت
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، خوریجی، جعفرآباد، ترکمان گیٹ، جامع مسجد سیمت ملک بھر میں تقریباً پچاس سے زائد مقامات پر
مظاہرے ہو رہے ہیں۔
شاہین باغ میں شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ، لائبریری میں گھس کر طلباء
پر کی گئی پولیس کی وحشیانہ کارروائی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء کے ساتھ بربریت کے خلاف 16دسمبر سے خواتین دن
رات کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔جس کی حمایت میں پورے ملک سے سرکردہ شخصیات آرہی ہیں اور وہاں بارش اور سرد موسم کے باوجود
خواتین کے جوش و خروش اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہاں انڈیا گیٹ بھی ہے اور ہندوستان کا نقشہ بھی تیار کیا گیا ہے
اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا حقیقی نظارہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختلف چھوٹے چھوٹے گروپ میں بچے بچیاں، اسکول و
کالج کے لڑکے لڑکیاں اس سیاہ قانون کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔
اس وقت پورا جامعہ نگر مجسم احتجاج نظر آرہا ہے۔ اسکول سے آتے ہوئے بچے بھی اس سیاہ قانون کے نعرے لگاتے ہوئے گھر آتے
دکھائی دیتے ہیں۔ شاہین باغ کے خواتین میں ہندی میڈیا کی جھوٹی رپورٹ کے سلسلے میں کافی ناراضگی ہے۔ احتجاج کرنے والی
خواتین کا کہنا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کی یہ کارستانی ہے۔ وہ لوگ خواتین کی آواز سے خوف زدہ ہیں اور اس لئے گھٹیا حرکت
پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو مظاہرہ کا سامنا کرنا چاہئے لیکن وہ مظاہرہ کے بارے میں غلط باتیں کر رہی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلباء اور عام لوگوں نے دھرنے کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اب چوبیس گھنٹے کا کر دیا ہے۔ ادھر،
سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے خلاف اہم شخصیات کی جانب سے بھی آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جامعہ کے احتجاج
میں الگ ہی رنگ نظر آتا ہے۔ یہاں ایک لائبریری نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف حراستی کیمپ بھی موجود ہے، پولیس بربریت کی
تصویریں آویزاں کی گئی ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے علامات نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی پورا ہندوستان نظر آتا ہے اور ہندوستان کی
ہر زبان میں نعرے لکھے نظر آتے ہیں۔ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جنگ آزادی کے دور کی جھلک نظر آ رہی ہے۔
جامع مسجد میں رات میں خواتین کا دھرنا شروع ہوتا ہے اور اہم لوگ اس میں تقاریر کرتے ہیں۔ بغیر مذہب و ملت اور علاقے سب لوگ
شریک ہوتے ہیں۔ نیشنل مومنٹ فرنٹ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سوربھ واجپئی نے اس موقع پر جامع مسجد کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے
کہا کہ دہلی کی جامع مسجد کو تین طرح یاد کیا جاسکتا ہے۔ پہلا یہ 1857 بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں فوج نے لڑائی لڑی تھی اور
جامع مسجد اس کی گواہ ہے، اور دوسرے حکیم اجمل خاں کے والد حکیم محمود خاں نے پرانی دہلی میں ہندو مسلم کے مابین ہونے والے
جھگڑے کے سامنے آگئے تھے اور دونوں کے درمیان اتحاد قائم کیا۔ اور تیسرے مولانا آزاد کی وہ تقریر ہے جس کی وجہ سے یہاں
سے مسلمان پاکستان جانے سے رک گئے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری لڑائی (مولانا آزاد، نہرو اور گاندھی کی) ساورکر اور جناح کے
نظریہ سے ہے۔ اس وقت ماحول بنایا جارہاہے وہ دراصل بٹوارے کی ادھوری کہانی کو پورا کرنا چاہتے ہیں،جسے ہمیں کسی قیمت پر
نہیں ہونے دینا ہے۔
دہلی کے خوریجی میں شہریت قانون،این آر سی اور این پی آر کے خلاف خواتین ثابت قدم بیٹھی ہیں اور مرد حضرات رات میں موم بتی
جلائے رات بھر کھڑے رہتے ہیں۔ یہی نظارہ جعفرآباد میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ روڈ کے کنارے سخت اذیت میں خواتین احتجاج
کررہی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت یہ قانون واپس نہیں لیتی اس وقت تک ہم لوگ نہیں ہٹیں گے۔ جعفرآباد کے آگے
مصفطیٰ آباد میں بھی خواتین نے مظاہرہ شروع کر دیا ہے اور کثیر تعداد میں خواتین اور لوگ وہاں آرہے ہیں۔
کولکاتہ کے پارک سرکس میں خواتین نے سخت پریشانیوں کے باوجود اپنا مظاہرہ جاری رکھا،اور انتظامیہ کو مجبور ہوکر وہاں ٹینٹ
لگانے کی اجازت دینی پڑی۔ انتطامیہ نے سہولت کی لائن کاٹ کر دھرنا کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خواتین کے عزم و
حوصلہ کے سامنے وہ ٹک نہیں سکی۔
اس کے علاوہ ممبئی کے اگری پاڈا علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شہریت قانون، این آر سی اوراین پی آر کے خلاف احتجا ج
کر رہی ہیں اور حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کانپور کے چمن علاقے کے محمد علی پارک میں خواتین
نے شاہین باغ کی طرز پر گزشتہ چند دنوں سے احتجاج شروع کردیا ہے اور خواتین نے اس سیاہ قانون کی واپس لینے کے مطالبے کے
ساتھ حکومت سے کہا کہ وہ خواتین کو کمزور نہ سمجھیں اور ان کی بلند آواز کو سنیں۔ مہاراشٹر کے دھولے میں بھی احتجاج شروع
ہوچکا ہے۔
دہلی کے بعد سب سے زیادہ شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف بہار سے آواز اٹھ رہی ہے اور بہار کی درجنوں جگہ
پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی
بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری
ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ’سیوان،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، سمستی
پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔اور بہت سے ہندو نوجوان
مسلمانوں کی حفاظت کرتے نظر آئے۔ سبزی باغ میں خواتین دھرنا آج آٹھویں دن بھی جاری رہا اور کئی اہم شخصیات نے اس میں
شرکت کی اور اس قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔مقررین نے کہا کہ سی اے اے کے ذریعہ اس حکومت نے ملک کے باشندوں کے
درمیان تفریق اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جس کو ہم کبھی معاف نہیں کر سکتے اور ہم اس فرقہ وارانہ نظریے کی شدید
الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
شاہین باغ کی طرز پر50 مقامات پر خواتین کے مظاہرے، یادیں تازہ ہوئیں جنگ آزادی کے دور کی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS