ہند-بنگلہ دیش تعلقات

0

کوئی ملک یکطرفہ رشتہ نبھا کر دیگر ملکوں سے خوشگوار تعلقات قائم نہیں رکھ سکتا، یہ بات ہندوستان جانتا ہے اور اس کے ان پڑوسیوں کو بھی سمجھنی ہوگی جو اس سے اپنے رشتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہندوستان کا کوئی پڑوسی اگر پاکستان کی راہ پر چلنا چاہتا ہے تو پھر اسے پاکستان کی حالت کا بھی جائزہ لینا چاہیے، یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان کیوں چین کی کالونی سا بن گیا ہے، چین سے اس کے ’شاندار‘ تعلقات کے باوجود اس کی حالت خستہ کیوں ہے۔ افغانستان کی ترقی کے لیے طالبان ہندوستان کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور اسی لیے وہ اس سے قربت کا اظہار کرنے لگے ہیں، جبکہ ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت ہند-بنگلہ دیش تعلقات کو ایک الگ ہی سمت دینا چاہتی ہے۔ بار بار کی شکایتوں اور الزامات سے وہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہے، سب سے پہلے یہ بات خود اسے ہی سمجھ لینی چاہیے۔

رہی بات ہندوستان کی تو اس نے ہمیشہ سے پڑوسیوں کو اہمیت دی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے ہندوستان کا وزیراعظم رہتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ ’دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں‘ یعنی اٹل جی نے وہ بات کھل کر واضح الفاظ میں بیان کردی تھی جو ہندوستان کی ان سے قبل پالیسی تھی، ان کی مدت کار میں پالیسی رہی اور ان کے بعد بھی اس کی پالیسی یہی رہی۔ آج بھی ہندوستان کی پالیسی ’پڑوسی پہلے‘ کی ہی ہے لیکن یہ بات اگر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی سمجھ میں نہیں آپارہی ہے کہ اس کے ملک کی تاریخ ہندوستان کے احسان سے شروع ہوتی ہے تو پھر اسے سری لنکا اور مالدیپ جیسے ملکوں کی حالت پر غور کرنا چاہیے۔ سری لنکا کے حالات بدترین ہوئے تو اسی ہندوستان نے اس کی مدد سب سے پہلے کی تھی۔

چین اور ہندوستان کے فرق کو سمجھ کر ہی سری لنکا کے موجودہ صدر انورادسانائکے ہندوستان کو اہمیت دے رہے ہیں، انوراوہ غلطی نہیں کرنا چاہتے جو پکشے بھائیوں نے کی تھی۔ مالدیپ میں انتخابی مہم کے دوران ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ لگاتھا۔ مالدیپ کا صدر بننے کے بعد معزو ذرا تیور میں تھے۔ پہلے غیرملکی دورے کے لیے انہوں نے ہندوستان کا انتخاب نہیں کیا لیکن جلد ہی ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ہندوستان سے تعلقات بگاڑ کر وہ مالدیپ کا بھلا نہیں کرپائیں گے، چین کے زیادہ قریب ہونے کے چکر میں اگر مالدیپ نے ہندوستان سے تعلقات خراب کرلیے تو وہ دوسرا پاکستان بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش پاکستان بننا چاہتا ہے؟ بات اگر یہ نہیں ہے تو پھر محمد یونس کی بنگلہ دیشی حکومت ہندوستان سے اسی طرح کے تعلقات کیوں نہیں رکھتی جیسے تعلقات حسینہ حکومت کے وقت میں تھے؟

بنگلہ دیش نے 12جنوری، 2025کو ہندوستان کے ہائی کمشنر پرنے ورما کو بلایا تھا۔ ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے خارجہ سیکریٹری محمد جشیم نے ورما سے ملاقات کی۔ ہند-بنگلہ دیش سرحد پر بی ایس ایف کی سرگرمیوں پر بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے ’گہری تشویش‘ ظاہر کی گئی۔ اس ملاقات سے پہلے ڈھاکہ کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ہندوستان باہمی معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے، وہ پانچ جگہوں پر باڑ لگانے کی کوشش کررہا ہے۔ ڈھاکہ کے الزام کے مطابق، ان پانچ جگہوں میں شمال مغربی چپئی نواب گنج، نوگاؤں، لالمونرہاٹ، تین بیگھہ کاریڈور شامل ہیں۔ محمد جشیم اور پرنے ورما کی ملاقات 45منٹ چلی تھی۔

بعد میں ورما نے بتایا کہ ملاقات میں اسمگلنگ، جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں اور ٹریفکنگ سے جڑے مسئلوں اور ان سے پاک سرحد بنانے پر گفتگو ہوئی۔ ورما نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے مابین سیکورٹی کے لحاظ سے سرحد پر باڑ لگانے پر باہمی مفاہمت ہے۔ بی ایس ایف اور بی جی بی(بنگلہ دیش بارڈر گارڈ)،ہم دونوں کی بارڈر سیکورٹی فورس اس ایشو پر مسلسل رابطے میں رہی ہیں۔‘ رپورٹ کے مطابق، آج 13جنوری، 2025کو ہندوستان کی وزارت خارجہ نے بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر نورالاسلام کو بلایا تھا۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ہند-بنگلہ دیش کے درمیان 4,156 کلومیٹر کی سرحد ہے۔ اس میں سے 3,271کلومیٹر میں باڑ لگائی جاچکی ہے جبکہ 885کلومیٹر کی سرحد میں باڑ لگائی جانی ہے۔ دونوں ملکوں کو اپنی سرحدوں کو مضبوط کرنا چاہیے اور اپنے تعلقات کو بھی۔ ڈھاکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان اس کا ایک ایسا پڑوسی ہے جو اس کے وقت پر ہمیشہ کام آیا ہے، وہ یہ نظرانداز نہ کرے کہ دنیا کے بدلتے حالات میں اسے ہندوستان کی ضرورت بارہا پڑے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS