دنیا بدل رہی ہے اور اس کی رفتار روز افزوں ہے۔ جو معیشتیں اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پاتیں‘ وہ پیچھے رہ جاتی ہیں‘ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں‘ ماضی کی عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ ہندوستان اپنی وسیع آبادی اور نوجوان قوتِ کار کے ساتھ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کے فیصلے اس کے مستقبل کی راہیں متعین کریں گے۔ سوال یہ نہیں کہ ہندوستان آگے بڑھنے کیلئے تیار ہے یا نہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ اس کی تیاری کس درجے کی ہے اور اسے کس رخ کو مزید استوار کرنے کی ضرورت ہے؟
QS ورلڈ فیوچر اسکلز انڈیکس 2025 کے مطابق ہندوستان کام کے مستقبل کے حوالے سے تیاری میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ مصنوعی ذہانت‘ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور سبز صنعتوں جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں اس کی مہارت سازی قابل قدر ہے لیکن جب ہم تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معاملہ اتنا سہل نہیں لگتا۔ تعلیمی نظام اور صنعت کی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی میں ہندوستان کا درجہ خاصا پست ہے۔ اس کی معیشت تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی رجحانات کا ساتھ دینے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن اس کی تعلیمی پالیسی‘ عملی تربیت اور مہارتوں کی تیاری میں اب بھی وہ ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی جو ترقی یافتہ اقوام کی پہچان ہے۔
QS ورلڈ فیوچر سکلز انڈیکس ایک بین الاقوامی درجہ بندی ہے جو Quacquarelli Symondsکی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔ یہ انڈیکس دنیا کے مختلف ممالک میں مہارتوں کی تیاری کا تجزیہ کرتا ہے اور اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا کوئی ملک عالمی جاب مارکیٹ کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تیار ہے یا نہیں۔
اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ ہندوستان کو اپنی اقتصادی ترقی کیلئے اعلیٰ مہارت یافتہ افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے لیکن عملی میدان میں یہ خلا پر نہیں کیا جا سکا۔ 2022 میں مارکیٹ میں 103 ملین ہنر مند افراد کی طلب تھی جب کہ اس کے مقابلے میں تقریباً 30 ملین افراد کی کمی تھی۔ یہ عدم توازن ہندوستان کی وسیع تر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اسی لئے تعلیم اور صنعتی ترقی کے باہمی ربط کو مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
تعلیم‘ محض نصابی کتابوں کے صفحات پلٹنے کا نام نہیں بلکہ عملی مہارتوں کو سیکھنے ،پرکھنے اور نکھارنے کا عمل ہے۔ ہندوستان کا تعلیمی نظام‘ خاص طور پر تکنیکی تعلیم‘ ابھی تک اس معیار پر نہیں پہنچ سکا جہاں وہ براہ راست صنعت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ انجینئرنگ کے میدان میں پوسٹ گریجویٹ سطح پر دو تہائی سیٹیں پُر نہ ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے‘ جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہمارے نصاب اور مارکیٹ کی ضروریات میں فاصلہ برقرار ہے۔ تحقیق اور ترقی پر ہونے والے اخراجات بھی عالمی اوسط سے کم ہیں۔ ہندوستان میں یہ صرف 0.6 فیصدہے‘ جب کہ دنیا میں عمومی طور پر یہ شرح1.93فیصدتک پہنچ چکی ہے۔ یہی وہ بنیادی خامی ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں سے دور رکھے ہوئے ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے تعلیمی نصاب میں بنیادی تبدیلیاںکی جائیں۔ یہ تبدیلیاں محض کتابی علم میں اضافے تک محدود نہیں ہونی چاہئیں بلکہ صنعتی ضروریات اور عملی مہارتوں پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ نظریاتی علم کا بوجھ کم کر کے عملی تربیت کو زیادہ جگہ دینا ضروری ہے۔ اسکول کی سطح سے ہی طلبہ کو ایسی مہارتوں سے روشناس کرانا چاہئے جو مستقبل میں ان کیلئے راہیں ہموار کر سکیں۔ اس سلسلے میں صنعتی تربیتی اداروں‘ گرین اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام اور اسکل انڈیا مشن جیسے منصوبے امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں مگر ان کے دائرہ کار کو مزید وسعت دینا ناگزیر ہے۔حکومت کو چاہئے کہ تحقیق و ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرے تاکہ تعلیمی ادارے نہ صرف بین الاقوامی معیار پر پورے اتریں بلکہ مقامی صنعتوں کیلئے بہترین تربیت یافتہ افرادی قوت بھی فراہم کر سکیں۔ مزید برآں تعلیمی اداروں اور نجی صنعتوں کے درمیان ایک پل تعمیر کرنا ہوگا تاکہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ براہ راست مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔
ہندوستان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی نوجوان آبادی ہے۔ اگر اس سرمائے کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ ملک نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا کی معیشت میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اگر اس نوجوان آبادی کو مناسب مواقع فراہم نہ کئے گئے، تو بے روزگاری اور ہنر کی کمی کا بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا۔دنیا کے بدلتے ہوئے رجحانات کے پیش نظر ہندوستان کو آج ہی فیصلے کرنے ہوں گے‘ کیوں کہ کل کا انتظار اس کیلئے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت‘ ڈیجیٹل انقلاب اور سبز صنعتوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں اور مستقبل کیلئے اپنی تیاری کو مزید پختہ بنائیں۔ تعلیمی ادارے‘ صنعتیں‘ حکومت اور نوجوان نسل سب کو مل کر اس خواب کو حقیقت بنانے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہندوستان اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ عالمی میدان میں اپنی جگہ بنا سکے گا۔