دیہی علاقوں میں بڑھتے سڑک حادثات: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

ہمارے ملک ہندوستان میں سڑکوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ آمدورفت کے یہ ذرائع مسافر اور انہیں استعمال کرنے والے صارفین کی سہولت کے لیے ہیں۔جہاں یہ بات صحیح ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سڑکوںکی مسلسل تعمیر کے بعدایک مقام سے دوسرے مقام تک آنے جانے اور سامان لانے لے جانے میں بہت آسانیاں ہوگئی ہیں، وہیں یہ بات بھی غلط نہیںہے کہ اچھی سڑکیں بننے سے ٹریفک اور ان کی رفتارمیں بہت اضافہ ہوا۔ اس سے حادثات کے معاملوں میںبھی کافی بڑھوتری ہوئی ہے۔ سڑک ٹرانسپورٹ کے ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں زیادہ ٹریفک اور آبادی کی کثافت کی وجہ سے سڑک حادثات اور اس میں ہونے والی اموات کی تعدادکا زیادہ ہونا قدرتی امر ہے،لیکن حکومت کی تازہ ترین رپورٹ نے دیہی علاقوں میں حادثات کی جو تصویر پیش کی ہے،وہ ایک نئی اور کافی چونکا نے والی ہے۔ 2023کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کل4,80,583سڑک حادثات ہوئے۔ان میں 1,60,509 حادثے جان لیوا ثابت ہوئے۔ان حادثوں میں 1,72,890لوگوں کی موت ہوئی۔دیہی علاقوں کے حادثات میں1,18,411 افراد یعنی69فیصد اور شہری علاقوں میں54,479 یعنی 31فیصد لوگوں کی جانیں گئیں۔یہ حادثے گزشتہ برس کے مقابلے4.2فیصد زیادہ ہیں۔ان میں گزشتہ سال کے مقابلے2.6فیصد زیادہ لوگوں کی موت ہوئی۔گزشتہ برس 2022کے مقابلے 4.4فیصد کے اضافہ کے ساتھ زخمیوں کی تعداد بڑھ کر4,62,825تک پہنچ گئی۔

حادثات سے متعلق ان اعدادوشمار پر غوروخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر روز1316 سڑک حادثے ہوئے اور ا ن میںروزانہ473لوگوں کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے،جب کہ 1268 افرادکوزخموں کا درد جھیلنے کے لیے مجبور ہوناپڑا۔اس طرح ملک میں ہر گھنٹے ہونے والے 55حادثوں میں 20 لوگوں کو موت کا شکار ہونا پڑا۔ہر 3منٹ میں ایک شخص کی موت کو کسی بھی نظریہ سے مناسب نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے مرکزی وزیر نتن گڈکری نے دسمبر 2024 میں ’روڈ سیفٹی ایونٹ‘ میں اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایاتھا کہ اس سال میں موت کا نوالہ بننے والے افراد میں10,000بچے ہیں۔اسکولوں اور کالجوں کے قریب ہونے والے حادثات میں10,000افراد ہلاک ہوئے،جب کہ پیدل چلنے والے35,000لوگوں کو اپنی عزیز جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔سڑک حادثوں میں سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ موٹرسائیکل سواروں کے ہیلمٹ نہیں پہننے کی وجہ سے54,000افراد اور چار پہیہ گاڑیوں میں سیٹ بیلٹ نہیں لگانے کی بنا پر 16,000 لوگ ہلاک ہوئے۔ گاڑیوں کی اوورلوڈنگ کی وجہ سے 12,000 لوگوں کی موت ہوئی،جب کہ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کی وجہ سے34,000حادثات پیش آئے۔ غورکیا جائے توان حادثات کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کی تیز رفتاری ہے۔شہروں کے مقابلے گاؤوں اور دیہاتوں میں زیادہ حادثے ہوئے اور زیادہ افراد کی جانیں تلف ہوئیں۔ ہر صبح کے اخبارات سڑک حادثات کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اتنی موتیں بیماریوں کے سبب نہیں ہو رہیں، جتنی اموات سڑک حادثوں میں ہو رہی ہیں۔ مسافروں سے بھری بسوں کے کھائیوں میں گرنے،نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنے،قابو سے باہر ہونے والی گاڑیوں کے ذریعہ پیدل چلنے والے لوگوں کے کچلے جانے، ٹرکوں، بسوں اور کاروں کے سڑکوں کے کنارے کھڑی دیگر گاڑیوں میں ٹکر مارنے،تیز رفتار گاڑیوں کے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی وجہ سے آپس میں ٹکرانے اور کسی دوسری گاڑی کے درمیان میں آجانے، غلط سمت میں گاڑی چلانے، بے قابو گاڑیوں کے خودبخود پلٹ جانے،بڑی گاڑیوں کے ذریعہ موٹر سائیکلوں میں ٹکر مارنے اور نابالغوں کے گاڑیاں چلانے میں چوک اور لاپروائی جیسے واقعات کی بنا پر حادثات کا ہونا عام بات ہے۔موٹرگاڑ یوںکا استعمال کرنے والے افراد بھی اپنی ذمہ داریوں سے بچ نہیں سکتے۔لوگوںکے ذریعہ بنیادی حفاظتی احتیاط اور تدابیر اپنانے میں ہوئی لاپروائی بھی انسانی جان کی دشمن بنی۔

یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ شہروں کے راستوں اور گاؤوں کی گلیوں میں شوق میں بائیک اور اسکوٹی چلانے والے نابالغ اور کم عمر بچے جانے انجانے میں اسٹیٹ اور قومی شاہراہوں پر گاڑیاں دوڑانے لگتے ہیں اورپھر حادثے کا شکار بن جاتے ہیں۔لرننگ لائسنس والے نوجوان بھی احتیاط سے کام نہیںلیتے۔سڑک کے کنارے بے ترتیب کھڑی گاڑیاں، سائیکلیں، سائیکل رکشائیں، ٹھیلے، جانوروں سے کھینچی جانے والی گاڑیاں، آوارہ جانور اور پیدل چلنے والے افراد جہاں راستوں میں بھیڑ کرنے کا سبب بنتے ہیں،وہیںسامان فروخت کرنے والے ہاکروں کے سڑکوں اور فوٹ پاتھوں پر قبضہ جمانے کی وجہ سے پیدل چلنے و الے افراد کے لیے مشکلات میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں،جس سے انہیں مصروف سڑکوں سے گزرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

اس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔تیز رفتار گاڑیوں کے ٹائر ڈیوائیڈر سے ٹکراکر گرمی پیداکرتے ہیں۔اس سے ٹائر کے پھٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اورگاڑیاں سڑک سے اُوپر اُٹھ کر پلٹ جاتی ہیں۔ملک میں بہت سے ڈیوائیڈر اس قسم کے خطرے کو ذہن میں رکھ کر ڈیزائن نہیں کیے جاتے۔دیہی سڑکوں پر باربار سرفیسنگ کی وجہ سے یہ راستے مرکزی سڑک سے چھ سے آٹھ انچ تک اُونچے ہو گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہر پرت کے ساتھ خطرہ بڑھتا ہی جاتاہے۔ زیادہ ترسڑکوں کے ڈیزائن کے معیار کاغذوںمیں صحیح اور زمین پر خراب طریقے سے نافذ کیے پائے جاتے ہیں۔امریکہ کے بعد ہندوستان دنیاکا ایسا دوسرا ملک ہے، جہاں روڈ نیٹ ورک سب سے زیادہ ہے۔ یہ نیٹ ورک تقریباً 66لاکھ کلومیٹر تک پھیلاہواہے۔ 31 مارچ 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں سڑکوں کی کل لمبائی 62,15,797 کلومیٹر تھی۔اس میں 1,51,000 کلومیٹر (2.19فیصد)قومی شاہراہیں، 1,86,528 کلومیٹر (3.00فیصد) ریاستی شاہراہیں، 6,32,154کلومیٹر(10.17فیصد)ضلعی شاہراہیں، 5,44,683 کلومیٹر (8.76فیصد) شہری شاہراہیں اور45,35,511 کلومیٹر (72.9 7فیصد) دیہی شاہراہوں کے علاوہ 3,54,921 کلومیٹر (5.70فیصد) پروجیکٹ سڑکیں شامل ہیں۔ قومی اور ریاستی شاہراہیں کل نیٹ ورک کا کم و بیش5فیصد ہیں،جب کہ دیگر سڑکیں اور تیزرفتار ایکسپریس وے ان کے علاوہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں35کروڑسے زیادہ رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں۔روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی وے کے وزیر نتن گڈکری کے مطابق سڑک حادثات کی خطرناک حد تک بڑھتی شرح میں اہم کردار سول انجینئرنگ کا ہے۔ناقص سڑک ڈیزائن،غیر معیاری تعمیر، کمزور انتظام،ناکافی سائن بورڈ،مارکنگ سسٹم اور اشاروں کی خراب اور تشویشناک صورت حال حادثات کی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان کی وزارت نے 2019 سے اب تک 59 بڑی خامیوں کی اطلاع دی اور حادثے کے خطرے سے دوچار 13,795 ’بلیک اسپاٹ‘ کی نشان دہی کی گئی۔ان میں سے صرف 5,036 حادثاتی مقامات کی طویل مدتی مرمت کی گئی۔لاء کمیشن آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بروقت ہنگامی طبی امداد کی فراہمی سے سڑک حادثات میں ہونے والی50فیصد اموات کو بچایا جاسکتا ہے، لیکن ایسا ہونا بہت آسان نہیں ہے۔ ممکنہ پریشانیوں اور دقتوں سے بچنے کے لیے راہ گیر اور مسافر سڑکوں پر حادثات کا شکار ہونے والے افراد کو دیکھنے کے باوجود ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ سڑکوں کی زیادہ تعمیر ملک کی ترقی کی کلید ہے،لیکن حادثات پر کنٹرول کے لیے سڑکوں کا پائیدار ہونا بہت ضروری ہے۔

دوسری جانب اب گاؤوں اور دیہاتوں میں سائیکلوں کی جگہ موٹر سائیکلوں،اسکوٹیوں اور کاروں نے لے لی ہے۔ کئی صارف بے وجہ بھی ان کا استعمال کرتے ہیں۔ کمیشن خوری اور ٹھیکہ داروں کے ذریعہ واجب لاگت سے گریز اور ضروری میٹریل کا استعمال نہیں کرنے سے دیہی علاقوں کی سڑکیں دوسری سڑکوں کے مقابلے کمزور اور ناپائیدارتعمیر کی جاتی ہیں۔موٹر سائیکلوںکا استعمال کرنے والے کئی افرادجہاں سر پرہیلمٹ پہننے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،تووہیں کئی ایک صارف سڑکوں کے قوانین کی پاسداری اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے شوخی میں اسٹنٹ کرکے حادثات کو دعوت دینے لگتے ہیں۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
jafrikanwal785@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS