’قرض‘ کہنے کو تو سہ حرفی لفظ ہے لیکن اپنے اندر تباہی و بربادی کا ایسا آتش فشاں سموئے ہوئے ہے جو سب کچھ نہیں تو بہت کچھ جلاکر خاک ڈالتا ہے۔زمانہ قدیم سے یہ صورتحال ایسی ہی ہے۔ آج کے اس جدید دورمیں سائنس و ٹیکنالوجی کی چکاچوند بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ہے۔ فرد کے معاملے میں مکمل تباہی ہی مقدر بنتی ہے، عزت، وقار، اخلاق، کردار، معاملات سب اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ معاملہ جب قوم و ملک کا ہو تو یہ اور سنگین ہوجاتا ہے تباہی و تاراجی گھر دیکھ لیتی ہے۔قرض خواہوں کی من مانی شرائط ملک و قوم کو ایسے مقام پر لے جاتی ہے جہاںسے غلامی کا آغاز ہوتا ہے۔ سری لنکا، ‘ پاکستان اور نیپال جیسے پڑوسی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہیں چین نے قرض کے جال میں جکڑکر ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاںان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت تک محفوظ نہیں ہے۔ ان کھلے حقائق کے باوجود بہت سے ممالک اپنی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے قرض لیتے ہیں لیکن اس قرض کا تناسب کبھی بڑھنے نہیں دیتے اور اس کی بروقت ادائیگی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔لیکن ہندوستان جس رفتار سے قرض لے رہاہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
آج ہندوستان پر غیر ملکی قرضوں کاحجم اس کی کل گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)کے مساوی ہونے میں زیادہ دیر نہیں رہ گئی ہے، کوئی دن جاتا ہے۔زر اصل اور سود درسود کی رقم اس کے جی ڈی پی کو نگل جائے گی۔ خود مرکزی حکومت بھی اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ31 مارچ 2023 تک ملک پر کل قرضہ جات مع بیرونی قرض155.77لاکھ کروڑ روپے ہے جو اگلے مالی سال 2024کی 31مارچ تک بڑھ کر 172.50 لاکھ کروڑ روپے ہوجائے گا۔آئی ایم ایف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق آج ہندوستان پر کل قرضہ جات اس کے جی ڈی پی کاتقریباً83فیصد ہے جب کہ ہندوستان جیسے ہی ابھرتے بازاروںاور ترقی پذیرمعیشت والے ممالک جسے آج کی معاشی اصطلاح میں ای ایم ڈی ای یعنی emerging market and developing economies کہا جاتا ہے، میں بیرونی قرضوں کا اوسط 64.5فیصد ہے۔ہندوستان اپنے جیسے ہی ممالک کے مقابلے میں بیرون ملک سے قرض لینے کے معاملے میںبہت آگے بڑھ چکا ہے۔
ہندوستان پراس غیرمعمولی قرض کے سلسلے میں کانگریس نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ قوم کے سامنے مکمل صورتحال پیش کرے اور قرطاس ابیض کے ساتھ سامنے آئے۔ کانگریس ترجمان کاکہنا ہے کہ 2014تک یعنی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت سے قبل تک ہندوستان کا مجموعی قرض 55لاکھ کروڑ روپے تھا۔ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو اس قرض پر 11 لاکھ کروڑ روپے کا سالانہ سود ادا کرنا پڑرہاہے۔کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کا قرض تین گنا بڑھ کر 155 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی 9 سال کی کامیابیوں میں ملک پر 100 کروڑ روپے کے قرض میں اضافہ بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ 155 لاکھ کروڑ روپے کے قرض کا مطلب ہر ہندوستانی پر 1.20 لاکھ روپے کا قرض ہے۔ 9برس پہلے تک ہندوستان کا فی کس 43,124روپے ہی تھا۔کہاں ہر ہندوستانی کے اکائونٹ میں یوں ہی مفت میں15 لاکھ روپے آنے تھے اور کہاں اب ہر ہندوستانی پر لاکھوں کا قرض چڑھ گیا ہے۔
یہ بھیانک اعدادوشمار کسی بھی محب وطن شہری کیلئے تشویش ناک ہوسکتے ہیں۔یہ معاملہ سیاسی نہیں بلکہ معیشت کا ایسا سنگین مسئلہ ہے جس سے آج ہر ہندوستانی گزر رہا ہے۔ بہتر دنوں کی امید میں ہندوستانیوں کی اکثریت نے بڑے چائو سے بی جے پی کو اقتدار سونپا تھا، نہ تو اچھے دن آئے اور نہ کسی کے بینک کھاتے میں15لاکھ روپے ہی آئے، اس کے برخلاف 500 اور 1000 روپے کے کرنسی نوٹوں کو بند کرکے خوشحالی کے راستہ بھی مسدود کردیے گئے، اب2000روپے کے نوٹوںپر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔کانگریس نے کوئی ایسا غلط اور بے جامطالبہ بھی نہیں کیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب خود مودی جی اور ان کی کابینہ ملکی معیشت کی ترقی کے ڈھنڈورے پیٹ رہی ہے اور 5کھرب امریکی ڈالر کی معیشت کا دعویٰ کررہی ہے تو اسے ملک کوصحیح صورتحال بتانے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے۔ویسے بھی یہ عوام کا حق ہے کہ انہیں درست صورتحا ل سے باخبر رکھاجائے۔
[email protected]
قرض کا بڑھتا بوجھ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS