جرمنی کے پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کے محققین کو تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جب موسم زیادہ گرم یا سرد ہوتا ہے تو لوگ انٹرنیٹ پر لوگ زیادہ جارح مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے گروپ کی سربراہ لیونی وینز کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج نے آن لائن نفرت انگیزی کو موسمیاتی تغیر کی جانب سے پڑنے والے نئے اثر کو واضح کیا جو مجموعی طور پر معاشرے کی اکائی اور لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ تحقیق میں محققین نے 2014 سے2020 کے درمیان امریکہ میں کی جانے والی 4 ارب سے زائد ٹوئٹس کا تجزیہ کرنے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ساڑھے 7کروڑ ٹوئٹس نفرت انگیزی پر مبنی تھیں۔ بعد ازاں محققین نے ٹوئٹس کا مقامی موسم کے ڈیٹا سے موازنہ کیا تاکہ دونوں کے درمیان ممکنہ تعلق دیکھا جاسکے۔ تحقیق کی سربراہ مصنفہ اینیکا اسٹیچی میسر کا کہنا تھا کہ تحقیق میں محققین کو ٹوئٹس کی حتمی تعداد اور انتہائی درجہ حرارت میں نفرت انگیز ٹوئٹس میں اضافے کے متعلق علم ہوا۔ جب بھی موسم زیادہ سرد یا گرم تھا لوگوں کا آن لائن رویہ زیادہ جارحانہ دیکھا گیا۔ محققین کے مطابق 12 سے21 ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت میں نفرت انگیز ٹوئٹس کی تعداد کم تھیں۔البتہ اگر درجہ حرارت اس سے کم تھا تو نفرت انگیزی میں 12 فی صد اضافہ دیکھا گیا جبکہ اس سے زیادہ درجہ حرارت کی صورت میں نفرت انگیزی میں 22 فی صد اضافہ سامنے آیا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ عالمی درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ متعدد آفات کا سبب بنتا ہے ۔ آفات سے لاحق خطرے میں کمی کے بارے میں اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی ڈی آر) کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ 2000 اور 2019 کے درمیان دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی اموات میں سے 13 فیصد شدید درجہ حرارت کی وجہ سے ہوئیں جبکہ ان اموات میں سے اکثریت (91 فیصد) ہیٹ ویو کا نتیجہ تھیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی نے21 ویں صدی کے ابتدائی 2 دہائیوں کے دوران موسم سے متعلق بڑی تباہی ریکارڈ کی اور ان میں ایشیا ئی کے سب سے زیادہ قابل ذکر ممالک ہندوستان اور پاکستان میں 2015 کے مئی اور جون ہیٹ میں آنے والے گرمی کی لہر تھی جس کے نتیجہ میں دونوں ملکوں میں باترتیب 2 ہزار 248 اور ایک ہزار 229 اموات ہوئیں۔ یو این ڈی ڈی آر، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا میں 2019 میں عالمی اوسط درجہ حرارت 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو صنعتی دور سے پہلے کا ہے، اس کے اثرات گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب ، موسم سرما کے طوفانوں، سمندری طوفان اور جنگل کی آگ سمیت انتہائی موسمی واقعات کی شکل میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے محققین نے خبردار کیا کہ اس صدی کے پہلے 20 سالوں نے آب و ہوا کی آفات میں ’حیرت انگیز‘ اضافہ دیکھا ہے، دولت مند اقوام نے خطرناک اخراج سے آب و ہوا کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا جس سے بڑی تعداد میں تباہی ہوئی۔ محکمہ موسمیات پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ رواں ہفتے کراچی سمیت سندھ کے بیشتر علاقوں میں ہیٹ ویو کی غیر متوقع لہر برقرار ہو سکتی ہے، جس کے ساتھ ہی دن کا درجہ حرارت 40 سے 42 سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بتایا ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت سے تمام اموات عالمی سطح پر دنیا کے شمالی علاقے میں ریکارڈ کی گئیں اور ان میں سے 88 فیصد اموات یورپ میں ریکارڈ کی گئیں۔
2003 میں یورپ میں ہیٹ ویو کی ایک بڑی لہر نے 72 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا اور 2010 میں، ہیٹ ویو کی ایک اور لہر روس میں 55 ہزار سے زیادہ اموات کا سبب بنی تھی، ابھی حال ہی میں 2019 میں 2 ہیٹ ویو کے نتیجے میں فرانس میں ایک ہزار 400 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ دنیا میں تین بڑی آفات جن میں ایک لاکھ سے زائد اموات ہوئیں وہ بھی 2000 سے 2019 کے درمیان آئیں جس میں 2004 کا بحر ہند میں سونامی، میانمار میں 2008 کا طوفان نرگس اور 2010 میں ہیٹی کا زلزلہ شامل ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان میں 2005 میں آنے والے زلزلے میں 73 ہزار 300 افراد ہلاک اور 2008 میں چین میں زلزلے کے نتیجہ میں 87 ہزار 500 افراد ہلاک ہوئے۔ 2000 سے لے کر 2019 تک تمام آفات میں سیلابوں کا تناسب 44 فیصد تھا جس نے پوری دنیا میں 1.6 ارب افراد کو متاثر کیا جو کسی بھی نوعیت کی آفت کا سب سے زیادہ اعداد و شمار ہے، 2000 سے لے کر 2019 تک سیلاب کے سب سے خطرناک واقعات میں جون 2013 میں ہندوستان میں سیلاب میں 6 ہزار 54 اموات، ہیٹی میں مئی 2004 کے سیلاب میں 2 ہزار 665 اموات اور پاکستان میں جولائی 2010 کے سیلاب میں ایک ہزار 985 اموات ہوئیں۔
درجہ حرارت میں اضافہ ذہنی صحت کیلئے مضر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS